’’پوروں پہ آسماں‘‘ ناہید عزمی کا عزم

202

خالد معین
ناہید عزمی نے اپنے پہلے شعری مجموعے کے مطابق اپنی پوروں پہ آسمان اٹھایا یا نہیں،یہ تو نہیں معلوم ،البتہ اس نام کی مناسبت سے اپنے تخلص ’عزمی ‘ والے عزم کا بھرپور اظہار ضرور کردیا ہے ۔’عزمی ‘ کے تخلص سے مجھے اپنا نوجوان اور مرحوم دوست عزیز عزمی بھی یاد آیا ۔عزیز عزمی میں زندگی کو اپنے طور پر جینے اور زندگی کے تمام لطف پل بھر میں نچوڑ لینے کا بے پناہ عزم تھا مگر زندگی کے ماہ و سال اُس کے لیے سخت نکلے اور یوں وہ عین نوجوانی میں اپنے وجود سے بچھڑ کے عدم کا ہوگیا ۔ناہید عزمی ان معنوں میں نئی نہیں کہ میری اُن سے دور دور کی ہلکی سی شناسائی اسی کی دہائی کے اختتام پرکراچی یونی ورسٹی میں اُس وقت پیدا ہوئی ،جب وہ وہاں سے اردو ادبیات میں ماسٹرز کر رہی تھیں ،اور میں اُن دنوں ایک حسن ِ نوخیزکی دل داریاں میں گم اُسی اردو ڈپارٹمنٹ کے محتاط چکر لگا رہا تھا ،جہاں ناہید عزمی اپنی سنجیدگی ،کم گوئی ،خوش ذوقی اور تعلیمی انہماک کے سبب بعض اساتذہ کی چہیتی بنی ہوئی تھیں ۔
ناہید عزمی شعر لکھنے کے علاوہ نثر نگاری بھی کرتی رہیں ،ڈراما نگاری بھی کرتی رہیں ۔تاہم ابتدا ہی سے اُن کے تخلیقی جوہر مجھ پر کم کم کھلے ،بل کہ سچ کہوں تو میں اُن کے بارے میں قدرے لاعلمی کا شکار رہا ۔انہیں ریڈیو اور اسی دور کے طلبا ء کے ساتھ کبھی کبھی ادبی پروگراموں میں ضرور دیکھا ۔اس کے باوجود ایک نامعلوم فاصلہ ہمارے درمیان قائم رہا ۔پھر رو بہ رو آنے میں برسوں کا فاصلہ حائل ہوتا چلا گیا ۔اِدھر ایک دو برس کے دوران ناہید عزمی ایک نئے عزم کے ساتھ کراچی کے شعری منظر نامے پر گاہے گاہے دکھائی دیں ۔اسی نئے دور میں مجھے ناہید عزمی کی شاعری کو نسبتاً زیادہ توجہ سے سننے کا اتفاق بھی ہوا اور مجھے محسوس ہوا کہ وہ اپنے وجود،اپنے عہد اور اپنے تجربات کو کچھ اس طور غزلوں اور نظموں میں اتارنے کی تگ و دو کر رہی ہیں کہ بہت گہری انفرادیت نہ سہی مگر اس جانب پیش رفت ضرور جاری ہے،اور یہ نئے ادبی منظر نامے میں یقینا قابل ِ قدر بات ہے ۔کراچی میں گزشتہ پندرہ بیس برس کے عرصے میں ادھیڑ عمر شاعرت کی ایک ایسی اچھی خاصی شوقین بھیڑ جمع ہو چکی ہے ،جو اس سے قبل ناپید تھی ۔خواتین کی یہ شوقین بھیڑ سنجیدہ ادبی نشستوں میں کم ،مشاعروں اور شعری نشستوں میں زیادہ فعال ہے ۔ریڈیو اورٹی وی چینلز کے علاوہ فیس بُک ،واٹس اَپ اور یوٹیوب وغیرہ کے ساتھ بعض پالولر رسالوں میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔ خواتین کی یہ شوقین بھیڑ کئی درجن لکھنے والیوں پر مشتمل ہے ، اور ان کا عام مسئلہ نام و نمود کی خواہش سے جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے ،تاہم اس شوقین بھیڑمیں بعض لکھنے والیاں واقعی شعروادب کی مقدس آگ میں اپنے وجود کو جلانے،کچھ سیکھنے ،کچھ پڑھنے کے ساتھ خود کو کندن بنانے کے سنجیدہ عمل سے گزر رہی ہیں ،اور ایسی نادر خواتین کا تخلیقی وجود کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ۔ناہید عزمی کے پہلے مجموعے ’پوروں میں آسمان ‘ کو اسی ذیل میں شمار کیا جانا چاہیے ۔مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اس معصوم خواہش یعنی ’پوروں پر آسمان ‘ کی جانب یہ اُن کا پہلا قدم ہے اور اس خواہش کا پورے ہونے میں، ایک طویل،تخلیقی، فنی اور شعری ریاضت درکار ہوگی ۔تاہم ناہید عزمی نے مجھ ایسے کور چشموں کو ،جو اب تک اُن کے تخلیقی وجود سے مکمل آگہی نہیں رکھتے کئی سطحوں پر حیران ضرور کیا ہے ۔
’پوروں پہ آسمان ‘ پر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم ،ڈاکٹر یونس حسنی ،فہمیدہ ریاض،قمر رضا شہزاد ،ڈاکٹر حامد مظہر اور افتخار فلک کاظمی کی مختصر اور تفصیلی آرا موجود ہیں ۔ فہمیدہ ریاض کی قابل ِ ستایس رائے ،ان معنوں میں اہم تصور کی جاسکتی ہے کہ وہ خود اردو شاعرات میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں ،یہی نہیں میرے نزدیک وہ اردو نظم کی سب سے بڑی شاعرہ بھی ہیں،تاہم اُن کی افسانہ نگاری سے میں متفق نہیں ،البتہ انہوں نے بعض ترجمے بڑے شان دار کیے ہیں ۔ خیر! ہم ناہید عزمی کے پہلے مجموعے کی جانب چلتے ہیں ،جس میں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں ۔ مجموعے کے پہلے حصے میں غزلیں اور دوسری حصے میں نظمیں دی گئی ہیں ۔اس طرح اُن کے تخلیقی سفر کودونوں اصناف کی کشادگی ومشاقی کی روشنی میں آسانی سے علاحدہ علاحدہ دیکھا جا سکتا ہے ۔
ناہید عزمی کے عزم کا کئی تجزیہ نگاروں نے ذکر کیا او رناہید کے اس عزم کو بڑی حد تک خود اُن کی کھتا ’ناتمامی کا سمندر ‘ میں بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ایک تو ناتمامی اور پھر وہ بھی سمندر کی ،خاصی معنی خیز ترکیب ہے ۔خیر ! ناہید نے اپنی نثری مشق کے سبب اپنے ذاتی حالات کو اشاروں ،کنایوں اور اختصار کے ساتھ شاعرانہ لے کی روانی میںخوب صورتی سے بیان کر دیا ہے اور یوں کچھ کہی ،کچھ اَن کہی کے بیچ اُن کابچپن،اُن کی ذات ،پسندیدہ اساتذہ ،زندگی میں اعتماد اور اعتبار دینے والی شخصیات کے ساتھ ساتھ ، اُن کے بچھڑے ہوئے والدین کی گہری پر چھائیاں موجود ہیں ۔پھر اسی کھتا میںاُن کے خواب،اُن کی جدو جہد ،اُن کی نفسیات ،اُن کے عزائم ،زندگی سے رفاقت اور پوری اور ادھوری محبتوں کے قصے ہیں،جو علامتوں اور استعاروں کے زریعے قاری کے ہم رکارب ہو جاتے ہیں ۔ناہید عزمی نے غزلوں کے پیرائے میں اجتماعی سطح پر تو وہی کچھ لکھا ہے،جو اُن کے عہد کی غزلوں میں عموما ً خواتین لکھ رہی ہیں ۔البتہ ناہید کی غزلوں میں اُن کا ذاتی کرب ،سر خوشی ،ہجر ،وصال ،حال احوال ،ذہنی اور جذباتی الجھنیں ایک نئے ذائقے کے ساتھ جگہ جگہ لَو دیتی محسوس ہوتی ہیں،اس طرز ِ سخن سے اُن کے ہاں ،جو تازگی اور رنگ رس پیدا ہوا ہے ،وہ اہم ہے ۔ اس کے ساتھ اُن کی غزلوں میں شہر آشوب کی واضح جھلکیاں بھی ہیں ،جو کراچی میں رہنے والے تمام تخلیق کاروں کے سخن میں در آتی ہیں ،البتہ کہیں اس کی کسک کم ہے اور کہیں بہت تیز ہے :
مائیں بیٹوں کی لاشوں پہ روتی رہیں
اک خبر بن کے سب سرخیاں رہ گئیں
ہجرتوں کے مسافر پرائے ہوئے
خواب بنتی ہوئی لڑکیاں رہ گئیں
میں نے عزمی کراچی کا نوحہ لکھا
میرے لفظوں میں کچھ ہچکیاں رہ گئیں
کون کتنا مخلص ہے وقت خود بتائے گا
دوست اور دشمن کی گنتیاں نہیں رکھنا
گھونٹ گھونٹ پی لینا ،ہجر کو محبت میں
عشق کی عدالت میں پیشیاں نہیں رکھنا
سمندر یاد ہے تم کو جہاں ہم تم سے ملتے تھے
وہ ساحل پیچ دینا تم ،کنارے بیچ دینا تم
موج موج طوفاں کو کیا خبر محبت میں
حادثے بھی ہوتے ہیںسسکیاں بھی ہوتی ہیں
چاند کو چرانے کی سازشیں نہ کرنا تم
آسماں پہ سنتے ہیں سختیاں بھی ہوتی ہیں
دور کے نظاروں سے تم سے راز کیا سمجھو
کتنا گہرا ساگر ہے کشتیاں سمجھی ہیں
اسی طرح نظموں میں بھی ناہید عزمی نے خوب کمالات دکھائے ہیں ،بل کہ سچ پوچھیں تو اُن کی نظموں کا حصہ غزلوں سے کچھ نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔غزلوں اور نظموںکے بنیادی موضوعات تو قریب قریب ایک جیسے ہی ہیں لیکن نظموں میں ناہید عزمی کے فطری شعری جوہر کی فضا زیادہ کھلتی اور کھِلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔وہ اپنی نظموں میں ایک گم شدہ محبت سے مسلسل سرگوشیاں کرتی رہتی ہیں ۔ایک ایسی محبت ،جو اُن کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم رہی ہے ۔اسی محبت کی قربت ،اور اسی محبت کی جدائی کا بیان کہیں ہجر کے روپ میں ،کہیں دھیمے وصال کی آنچ میں اپنا رنگ دکھاتی ہیں۔کہیں یہ محبت ایک یاد بن جاتی ہے اور کہیں اس محبت کی یاد انہیں زخم زخم کرتی ہے اور کہیں یہ زخم کی مسیحائی بھی کرتی ہے ۔محبت کے علاوہ ان نظموں میں ذات کی گہرائی ،شکست ِ ذات کے غبار ،ہم عصر مسائل کی ہلکی سی جھلک اور نسائی معاملات پر پُر اعتماد انداز میں تبصرے بھی شامل ہیں ۔یوں دیکھا جائے تو نسائی اعتبار کی سمت سنجیدہ پیش قدمی اور محبت اُن کا سب سے پسندیدہ موضوع ہے :
جو نیند اڑادے آنکھوں سے
جو تلپٹ کردے سانسوں کو
جو دل کو سکوں کا پل نہ دے
جو پل پل رنگ بدلتی ہو
جو ہجر کی قیدی بن بیٹھے
جو وصل کی کوئی شام نہ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت اورنسائی لہجے کی کاٹ دیکھیں ،لیکن خیال رہے ذیل میں درج نظموں کے ٹکڑے محض چند مختصر سے ٹکڑے ہی ہیں مکمل نظمیں نہیں:
مجھے آزاد ہونا ہے
مجھے آزاد کر دو تم
کہیں جینے کی خواہش ،خواب میںکروٹ بدلتی ہے
کہیں ٹھہرا ہوا لہجہ مجھے ہنسنے نہیں دیتا
کبھی گزرا ہوا اک پل مجھے جینے نہیں دیتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی ہے عورت ،وہی کہانی
وہی جبیں پہ کھتا پرانی
وہی ہیں قدموں کے زرد چھالے
وہی ہے منزل کی بدگمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی نہ مجھ کو چھوڑ تُو
ابھی نہ مجھ سے دور جا
نئی رتوں کے وسوسے ،گئی رتوں کی تلخیاں
محبتوں کی دھجیاں ،مرا وجود لے اُڑایں
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دیکھو ایک تکیے کے سرہانے خواب سوتا ہے
جو شیشے سے بھی نازک ہے
کہیں وہ ٹوٹ نہ جائے
اُسے واپس مجھے دے دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضطرب ،مشتعل ،بدگماں سی ہوا
سر پہ ماضی کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے
بے خودی کے تصرف میں گم
میرے کمرے کی رہداریوں سے پرے
شور کرتی ہوئی ،گنگاتی ہوئی
قربتوں کے دریچوں سے الجھی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھیں ہم سے بچھڑنا تھا
بچھڑ جاتے
اگر رستہ بدلنا تھا
بدل جاتے
کوئی الزام دینا تھا
لگا جاتے
وفا کا نام لے کر
بے وفائی کی اجازت تو نہیں تم کو
ان نظموں کی لہر بحر اور مخصوص موضوعاتی دائرے کی رنگا رنگی ناہید عزمی کے ظاہری اور باطنی وجود کی آئینہ دار ہے ۔انہی نظموں میں اُن کے آیندہ کے تخلیقی امکانات کی گواہی بھی ہے اور تخلیقی وسعتوں کی اشارہ بندی بھی ہے ۔ناہید عزمی کے تخلیقی وجود میں غزل اور نظم دونوں کے امکانات کی وسیع دنیا موجود ہے ،جسے وہ آگے چل کے اپنی آرزو ،جست جو اور تخلیقی وفور کے ساتھ بروئے کار لا سکتی ہیں اوریہی امکانات اُن کے لیے ایک مثبت صبح کی نوید بھی ہیں ۔