قدسیہ ملک
ترقی کیا ہے؟ کیا صرف پورے ملک میں سڑکوں کا جال ترقی ہے؟ یا تمام شہروں میں میٹرو بسیں ترقی کا ثبوت ہیں؟ یا ناردرن بائی پاس، اوورہیڈ برج کو ہم ترقی کہہ سکتے ہیں؟ آپ میں تقریباً سب، یا بیشتر اسے مکمل ترقی نہیں کہیں گے۔ تو پھر ترقی کیا ہے؟ کیا یہ کسی مبہم سی کیفیت کا نام ہے جو کبھی حقیقت کا جامہ پہن کر میری اور آپ کی نظروں کے سامنے نہیں آسکتی؟ جی نہیں ایسا کچھ نہیں۔ ترقی اتنی مشکل نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ترقی بنیادی طور پر اپنے اندر بہت سے تصورات سموئے ہوئے ہے جن میں سے کچھ کلیدی تصورات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ خود انحصاری (Self Reliance): خودانحصاری ایک ایسی صورتِ حال ہے جس میں ممالک اپنی بیشتر ضروریات خود اپنے وسائل سے پوری کرنے پر قادر ہوں۔ کامل خودانحصاری ممکن نہیں، تاہم قوم کو ایسے وسائل حاصل ہوں جن کی دوسرے ممالک کو ضرورت ہو۔ مثلاً پاکستان چاول، کپاس، نمک کی پیداوار میں، فرانس زیتون کی پیداوار میں، بنگلہ دیش پٹ سن اور چاول کی پیداوار میں، کینیا چائے اور کافی کی پیداوار میں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ خودانحصاری کے لیے ضروری ہے کہ قوم اپنے انسانی، قدرتی اور مالی وسائل کو پیداواری شعبوں میں اس طرح استعمال کرے کہ ترقیاتی مقاصد سرعت سے حاصل ہوسکیں۔ اسی طریقے سے اقوام ترقی کرتی ہیں۔
پاکستان میں خود انحصاری سے مراد ایک عام آدمی کی نظر میں صرف یہ ہے کہ صرف ایک خاندان، ایک گروہ، ایک کمیونٹی ترقی کررہی ہے۔ باقی سب بیٹھے منہ تک رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جن میں پاکستان سرفہرست ہے، صاحبِ اقتدار بیرونی امداد اور ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنے اثاثے جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ بیرونی آشیرباد کی بدولت عوام کو بے روزگاری کی دلدل میں دھکیلتے ہوئے اس نہج پہ لاکھڑا کیا ہے کہ غریب عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں یا بچے بیچ کر پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔ خودانحصاری کی بدولت ہی پاکستانی معاشرہ ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جا سکتا ہے کہ ملکی مالی و قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ ملکی انسانی وسائل سے بھی استفادہ کیا جائے تاکہ کوئی شخص بیکاری کی کیفیت سے دوچار نہ ہو۔
2۔ دوسروں پر انحصار (Dependency): یہ خودانحصاری کے برعکس صورت حال ہے۔ متعدد ترقی پذیر اور تیسری دنیاکے ممالک بشمول پاکستان اس کیفیت میں مبتلا ہیں۔ یہ ممالک معیشت کے ہر شعبے میں ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ممالک اپنی تقدیر کا کوئی فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے نہیں کرسکتے، حالانکہ انہیں قانونی اور آئینی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ سی پیک منصوبہ اس کی بہترین مثال ہے۔ بلاشبہ سی پیک کے ذریعے ملکی معیشت کا پہیّہ تیزی سے گردش کرنے کے قوی امکانات موجود ہیں لیکن ہماری شعبہ ابلاغ عامہ کی پروفیسر کے بقول چین کے عوام جس تیزی سے یہاں آتے دکھائی دے رہے ہیں لگتا ہے چند برسوں میں پاکستان چین کی نو آبادی بننے جارہا ہے۔ چین میں قیدیوں کی سزائیں معاف کرکے انہیں جیلوں سے پاکستان بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ یہاں آکر محنت مزدوری کریں۔ جب افرادی قوت کی پہلے ہی وافر مقدار میں ضرورت ہمارا اپنا ملک پوری کررہا ہے تو پھر چین سے لوگوں کی درآمد چہ معنی دارد…
3۔ ثقافتی شناخت (Cultural Identity): قوم کی تعمیر کے لیے صرف سائنس، ٹیکنالوجی و دیگر مادی وسائل ہی درکار نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ثقافتی و مذہبی شناخت اور اس کا ادراک بھی ضروری ہے۔ اس سے وابستہ احساسِ تفاخر قوم کے لیے قوت کا درجہ رکھتا ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
ہمیں اپنے مذہب، اپنی ثقافت، اپنی سماجی اقدار پر جب تک فخر نہیں ہوگا ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ نہیں کہہ سکتے۔ آج کا دور گلوبل ولیج کا دور ہے۔ اقوام کا سرمایہ شناخت ثقافت و مذہب ختم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ زندہ قومیں اپنے ثقافتی، مذہبی، قومی ورثے کی حفاظت کرکے ہی اقوام عالم میں مضبوط و مستحکم ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک سفرنامے میں پڑھا تھا کہ چینی قوم میں شرح تعلیم زیادہ ہونے کے سبب انگریزی زبان سے ان کی واقفیت کوئی بڑی بات نہیں، لیکن وہ چینی زبان میں ہی بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کے سبب اب دوسرے ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک بھی چینی معیشت کے پھیلائو کے باعث چینی زبان سیکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ خود ہماری جامعہ کراچی میں بھی نئے آنے والے 2017ء کے طلبہ و طالبات کے لیے چینی زبان پڑھنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
4۔ عدم مرکزیت (Decentralisation): عدم مرکزیت سے مراد ہے کہ اختیارات کسی ایک خاص مرکز پر ہی جمع نہ ہوں بلکہ ان کا دائرہ تمام افراد پر محیط ہو۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں اس بات کا شعور بیدار کیا جائے کہ ہر شخص ذمہ دار ہے۔ اس سے نہ صرف ترقی کا دائرہ وسیع ہوگا بلکہ جرائم کی شرح میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئے گی۔ اختیارات بانٹنے سے ہی حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔ اچھی حکمرانی کے جدید تصور میں مرکزیت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس سے مختلف سطحوں میں افراد میں احساسِ شرکت پیدا ہوتا ہے۔ عدم مرکزیت کے تحت ہر فرد کو نچلی سطح تک ہونے والے فیصلوں میں براہِ راست شرکت کا موقع ملتا ہے۔ ہم اس کا مشاہدہ ماضی میں اپنی تیسری جماعت میں پڑھتے ہوئے کرچکے ہیں۔ ٹیچر کو کسی کام سے کلاس سے باہر جانا ہوتا تو وہ کلاس کے سب سے شریر لڑکے کو اُس وقت کلاس کا مانیٹر بناکر کہہ دیتی تھیں کہ کلاس میں بالکل شور نہیں ہونا چاہیے۔ اور واقعی ان کے آنے تک کلاس میں بالکل شور نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب سے شریر لڑکے کو تو وہ کلاس میں اہم کام سپرد کرکے گئی ہوتی تھیں۔ وہ کلاس کو خاموش کروانے میں ہی لگا رہتا اور اپنی شرارتیں کچھ دیر کے لیے موقوف کردیتا تھا۔
شرکت (Participation): اس سے مراد تمام ملکی فیصلوں، فیصلوں کے نفاذ اور اس سے ابھرنے والے معاملات میں عوامی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ ترقیاتی ابلاغ کار کی تمام حکمتِ عملی شہریوں میں احساسِ شرکت پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے، جس کی بدولت بہترین اور قابلِ عمل منصوبے عوام میں وقوع پذیر ہوکر کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ عدم مرکزیت جب بڑھے گی تو وہ شرکت پر اختتام پذیر ہوگی، اور معاشرہ ترقی کے سفر پر بآسانی گامزن ہوسکے گا۔ کیونکہ بقول اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
شہرکاری:(Urbanisation): بنیادی طور پر اس کا مطلب شہروں میں آبادی اور شہری سہولیات کا فروغ ہے، جس کے تحت معیارِ زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ وسیع پیمانے پر دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی معاشرے کے لیے مجموعی طور پر نقصان دہ ہے۔ اس لیے شہری سہولیات کا صرف شہروں میں ارتکاز نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کا دائرۂ کار دیہی علاقوں تک پھیلانا چاہیے۔ بہتر رسل و رسائل، زرعی اور دیگر متعلقہ صنعتوں کا قیام، تعلیم، صحت و دیگر سہولیات کی بدولت نقل مکانی کے رجحان کو روکا جا سکتا ہے۔ کراچی کے عوام کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی، بے ہنگم ٹریفک، جرائم کی بہتات، ناقص غذا، آلودہ پانی، کچرے کے ڈھیر، ناقص سیوریج سسٹم، صنعتی فضلے اور بے روزگاری کے پھیلائو سے پریشان ہیں۔
جدیدیت (Modernisation): جدیدیت ایک ایسا رجحان ہے جس میں افراد سادہ طرزِ زندگی چھوڑ کر نسبتاً بہتر، پیچیدہ، جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ زندگی اپناتے ہیں۔ اس کی ابتدا شہرکاری کے عمل سے ہوتی ہے۔ اس سے انسان نئے رجحانات و علوم سے آگاہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ صرف یورپی اور امریکی طرزِ فکر کو ہی جدیدیت کا معیار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔ یہ دراصل جدید رجحانات، مستحکم تہذیبی اور ثقافتی امتزاج کا نام ہے۔ جتنی مستحکم آپ کی اپنی تہذیبی، ثقافتی، سماجی، مذہبی، تعلیمی، لسانی، اقتصادی، روایتی اور ملکی شناخت ہوگی اتنی ہی مستحکم آپ کی زندگی ہوگی۔ بقول شاعرِ مشرق
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
صنعت کاری (Industrialisation): ترقی کے استحکام کے لیے صنعتوں کے قیام کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے نئی تکنیک کاری اور پیداوار کے فروغ کے نئے طریقوں کو متعارف کروایا جاتا ہے۔ صنعتی کامیابی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے لیے بنیادی سہولیات موجود نہ ہوں۔ اس کے لیے 1960ء کی دہائی میں نوآبادیاتی ممالک کے ترقیاتی منصوبہ سازوں کے مشورے سے بڑے پیمانے پر بنیادی سہولیات مثلاً ریلوے، بندرگاہیں، بجلی گھر، مکانات اور مدارس کے قیام کے لیے وسائل فراہم کیے گئے۔ صنعتوں کے قیام کے لیے ناقص منصوبہ بندی سے متعدد مسائل نے بھی جنم لیا۔ چند شہری علاقوں میں صنعتوں کا ارتکاز، شہروں کی جانب بڑے پیمانے پر نقل مکانی، دستیاب شہری سہولیات پر شدید دباؤ، بے روزگاری، کچی آبادیوں میں اضافہ، ماحولیاتی آلودگی، امیر و غریب کے درمیان وسیع ہوتی خلیج… یہ سب آج ہم اپنے شہر کراچی میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ بے روزگاری کے باعث نوجوان غلط راہوں پر نکل جاتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ عوام اس کے باعث سانس، جلدی بیماریوں اور پیٹ کی متعدد بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ پارکوں کی جگہوں پر بھی مکانات تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ کراچی کی آبادی بڑھ کر سپرہائی وے تک پہنچ چکی ہے۔ آباد فلیٹوں کا ایک جال پورے شہر میں پھیلا ہوا ہے۔ کچرے کے بڑھتے ہوئے انبار کے باعث لگتا ہے کہ ایک دن پورا شہر اس عفریت کی ضرر رسانیوں کا شکار ہوجائے گا۔ گندے پانی کی درست نکاسی نہ ہونے کے باعث مچھروں کی مختلف اقسام میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے شہری چکن گونیا، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں میں صحت، روپیہ، وقت سب برباد کررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعت کاری کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ کچی بستیوں میں صحیح اور مناسب لیڈی ہیلتھ ورکرز تعینات کی جائیں جو غریب عوام کو بیماریوں کی روک تھام سے متعلق آگہی دے سکیں۔
بنیادی ضروریات (Basic Needs): مکمل ترقی احسن حکمت عملی اور بنیادی انسانی ضروریات پر مبنی ہے۔ بنیادی ضروریات کی فہرست میں کمی ہوسکتی ہے لیکن بعض انسانی ضروریات ایسی ہیں جنہیں ہر حال میں پورا ہونا چاہیے۔ خوراک، غذائیت، صحت، تعلیم، مکان اور روزگار… یہ چند ایسی ضروریات اور حقوق ہیں جو ریاست کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد تک پہنچنا بہت ضروری ہیں۔ ملک کا نظام معیشت انہی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے استوار کیا جاتا ہے۔ بعد کے مراحل میں ان کا دائرہ پھیلتا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان ضروریات کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو بنیادی ضروریات کا درجہ رکھتی ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں وہ تعیشات کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً ترقی یافتہ ممالک میں معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کی خوراک، رہائش اور بنیادی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ماں اور پیدا ہونے والے بچے (زچہ و بچہ) کے دوسال تک اسپتال، دواؤں اور دودھ کے اخراجات حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد بھی وہ فرد اپنی ذمہ داری جب تک خود نہیں اٹھا سکتا، ریاست اس کی ذمہ داری ادا کرے گی۔ یورپ کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں بوڑھے افراد کے لیے وظائف اور مختلف پروگرامات ماہانہ بنیادوں پر رکھے جاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اٹھارہ سال تک بچے کی قانونی نگہداشت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جنگوں پر بھیجے جانے والے فوجیوں کا ہر چھ ماہ میں اپنے خاندان سے ملنا لازمی ہے۔ والدین بچوں کو بلاوجہ مار پیٹ و سختی نہیں کرسکتے۔ ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنے شہری کا ایسے اسکول، کالج، یونیورسٹی میں داخلہ ممکن بنائے جو اس کے گھر سے قریب تر ہو۔ تعلیم کے بعد نوکری کے لیے راہیں ہموار کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ گھر بیٹھی خواتین کو ریاست کی جانب سے فون کیے جاتے ہیں اور انہیں اس بات پر راضی کیا جاتا ہے کہ آپ کے بچے بڑے ہوگئے ہیں، آپ اپنا وقت کسی اسکول میں یا کسی اسٹور میں لگا سکتی ہیں۔ وہاں ریاست کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ واضح رہے ان میں سے بیشتر وہی قانون ہیں جن کا اطلاق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرتے وقت اپنی ہر ریاست میں کیا تھا۔ آج بھی سوئٹزرلینڈ اور بعض یورپی ممالک میں یہ قوانین ’عمر لا ‘کے نام کے ساتھ آئین کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔
بقول ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا