قصہ مختصر

260

شرر
ہمارے دوست شاعر تو نہیں ہیں لیکن شرر تخلص کرتے ہیں۔ سائکلو اسٹائل ٹائپ ہیں۔ جس بات کی رٹ لگا لیںوہی دہراتے رہتے ہیں۔ شرر اپنا ایک قصہ یا واقعہ تکرار سے سناتے ہیں کہ ان کے اباجی مرحوم نے انھیں بعد از ولادت ایک ایسی انوکھی گھٹی پلائی تھی جس سے آج تک ان کے ٹخنوں سے ٹخ ٹخ کی آواز نہیں آئی البتہ دماغ سے چخ چخ کی آواز آتی ہے۔ ابا سے چخ چخ جو رہتی تھی۔ اب ہم نے اس چخ چخ سے تنگ آکردماغ کا بوجھ ٹخنوں پر ڈال دیا ہے۔ ٹخنوں سے سوچنے کا اپنا ہی مزا ہے۔
شرر اپنی ہر کہانی کا مرکزی کردار خود ہوتے ہیں۔ کہانی کے ہیرو ان کے ابا جان۔ ایک روز باتوں کے درمیان اتفاق سے کسی خاکروب کا ذکر آ گیا۔ حسب عادت بات کے درمیان میں انٹری ڈال کر بولے۔ ہمارے خاندانی خاکروب کو جھاڑو پکڑنے کا فن اس خاکسار شرر نے ہی توسکھایا تھا۔ ہمارے قیاس کے مطابق شرر صاحب نے جھاڑو پھیرنے کا فن اباجی سے ہی سیکھا ہوگا کیوں کہ ان کے ابا شرر کے ہر معاملے میں استاد رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ ابو جی تو فنِ چھوڑو گری میں بھی آپ کے استاد رہے ہوں گے۔ ایک آہ بھر کر بولے یہاں ایسا نہ ہوسکا۔ ابا نے تو ایک روز گھر میں سر سری جھاڑو پھیرنے پر اپنے اس مہان سپوت شرر کو ہی گھر سے نکال باہر کیا تھا۔ جھاڑو گری کا فن تو ہم نے اپنے بل بوتے پر سیکھا اور سکھایا۔ شرر ذرا طیش میں بولے۔ ابا کے گھر میں تو پہلے ہی جھاوڑو پھری ہوئی تھی ہم کیا کمال دکھاتے۔ شرر نے بتایا کہ دراصل ابو جان ہمارے اس خاندانی شناخت کو اپنے چھوٹے بیٹے یعنی ہمارے چھوٹے بھائی کے شولڈر پر سجاناچاہتے تھے۔ عبث ہمیں نالائق اولادقرار دے کر گھر سے نکال باہر کیا۔ پھر ہمارے بعد ہوا یہ کہ یہ فن ہمارے گھر سے نکل کر کمیں کمینوں کے ہاتھ آگیا۔ آج ہمارے گائوں کا ہر نتھو خیرا۔ استاد خاکروب خاںبنا پھرتا ہے۔
شرر اپنے ابا کے بعد علی قلی خان سے بہت متاثر تھے انھیںاپنے آپ میں چھپا ہوا قلی خاں دکھائی دے گیا تھا۔ گھر چھوڑ کر پہلی فرصت میں کینٹ پر قلی لگ گئے۔
شرر شروع ہی سے کتابوں کے شوقین تھے‘ علم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسٹیشن پر مسافروں کی کتابوں کا بوجھ کاندھوں پر اٹھانے کے پیسے کبھی نہیں لیے۔ لوگ ان کی کتاب دوستی سے متاثر ہوکر کتابیں گفٹ کرنے لگے۔ ان کتابوں کے طفیل انھوں نے اپنی تعلیم کو آگے بڑھایا۔ لیکن کسی باقاعدہ تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کے پیسے نہ تھے۔ شرر کے مطابق ایک روز ان کے ذوق مطالعہ سے متاثر ہو کر ایک علم دوست نے ان کے ناتواں کاندھوں سے صندوقوں کا بوجھ اتار کرکتابیں لادنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے دفتر میں مستقل قیام کی جگہ دی۔ وہیں آپ نے نوکری کے ساتھ پڑھائی بھی شروع کردی۔