ہزاروں سوالوں کا ایک سوال

242

سید ابوالحسن ندوی
’’الفرقان‘‘ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی ایک بڑی قابلِ قدر و فکر انگیز زیر طبع تصنیف ہے، جس میں وہ ایک سوال اٹھاتے ہیں:
’’درخت اگر اپنے طبعی نظام سے نشوونما پائے تو وہ اپنے برگ و بار ضرور پیدا کرے گا اور وقت پر پھل لائے گا۔ انسانوں کو اس کا اختیار ہے کہ درخت نہ لگائیں یا اس کو پانی نہ دیں، یا جب تیار ہو تو اس کی ہستی کو ختم کردیں۔ مگر اس کا اختیار نہیں کہ ایک توانا و تندرست اور سرسبز و شاداب درخت کو اپنے نوعی وجود و شخصیت کے اظہار اور وقت پر پھل پھول لانے سے روک سکیں۔
یہی معاملہ مغربی نظامِ تعلیم کا ہے کہ وہ اپنی ایک روح اور اپنا ایک منفرد ضمیر رکھتا ہے۔ جو اپنے مصنفین و مرتبین کے عقیدہ و ذہنیت کا عکس، ہزاروں سال کے طبعی ارتقا کا نتیجہ، اہلِ مغرب کے مسلمہ افکار واقدار کا مجموعہ اور ان کی تعبیر ہے۔ یہ نظام تعلیم جب کسی اسلامی ملک یا مسلمان سوسائٹی میں نافذ کیا جائے گا تو اس سے ابتداً ذہنی کشمکش، پھر اعتقادی تزلزل، پھر ذہنی اور بعد میں (الاماشا اللہ) دینی ارتداد قدرتی ہے… اس بنا پر آج عالم اسلام میں دو ذہنوں، دو فلسفوں، دو معیاروں، دو رخوں کے درمیان جو کشمکش برپا ہے اور جو عام طور پر منتج ہوتی ہے زیادہ طاقتور، مسلح، صاحبِ اختیار و اقتدار گروہ کی کامیابی پر، بالکل قدرتی ہے۔ وہ اگر ہے تو خواہ کتنے ہی تاسف کی بات ہو، پر تعجب کی بات نہیں۔ تعجب اُس وقت ہوتا جب یہ کشمکش اور یہ محدود مغربیت کا رجحان نہ پایا جاتا۔‘‘ (الفرقان اکتوبر۔ 34-27)
تشخیص کے صحیح اور سو فیصدی صحیح ہونے میں شک نہیں۔ یہ کوئی فلسفہ نہیں، دقیق نظریہ نہیں، سامنے کا صاف و صریح واقعہ ہے۔ مشکل سوال اس صحیح تشخیص کے بعد صحیح علاج کا ہے، یہاں پہنچ کر مولانا فرماتے ہیں:
’’اس کا علاج (خواہ وہ کتنا ہی مشکل اور کتنا ہی دیر طلب ہو) اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نظام تعلیم کو ازسرنو ڈھالا جائے، اس کو مسلمان اقوام کے عقائد و مسلمات اور مقاصد و ضروریات کے مطابق بنایا جائے، اس کے تمام علوم و مضامین سے مادہ پرستی، خدا بیزاری، اخلاقی و روحانی اقدار سے بغاوت اور جسم پرستی کی روح نکال کر اس میں خدا پرستی، خدا طلبی، آخرت کوشی، تقویٰ شعاری اور انسانیت کی روح پیدا کی جائے، زبان و ادب سے لے کر فلسفہ و نفسیات تک، اور علوم عمرانیہ سے لے کر معاشیات و سیاسیات تک سب کو ایک نئے سانچے میں ڈھالا جائے، مغرب کے ذہنی تسلط کو دور کیا جائے، اس کی معصومیت و امامت کا انکار کیا جائے، اس کے علوم و نظریات کو آزادانہ تنقید اور جرأت مندانہ تشریح (پوسٹ مارٹم) کا موضوع قرار دیا جائے۔ مغرب کی سیادت و بالاسری سے عالم انسانی کو جو عظیم الشان نقصانات پہنچے ان کی نشان دہی کی جائے، مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے علوم و فنون کو پڑھا جائے، اس کے علوم و تجارب کو خام مواد فرض کرکے، اپنی ضرورت اور اپنے قدوقامت اور اپنے عقیدہ و معاشرت کے مطابق اس سے سامان تیار کیا جائے۔‘‘