سوال ہی سوال

620

سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف نے سوال کیا ہے کہ دھرنے کا سہولت کار کون تھا؟ اس سے پہلے دھرنے والے بھی ایک سوال پوچھتے رہے کہ انتخابی اصلاحات کے ترمیمی بل سے ختم نبوت کی شق سے چھیڑچھاڑ کا سہولت کار کون تھا؟ اسی سوال کے جواب کے لیے مسلم لیگ ن کے سینئر راہنما راجا ظفر الحق کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی مگر کمیٹی اس سوال کا جواب تلاش نہ کر سکی اور اگر تلاش کیا بھی گیا تو صیغۂ راز ہی میں رکھنے میں عافیت سمجھی گئی۔ اب میاں نوازشریف نے بھی جو سوال پوچھا ہے اس پر قیاس آرائیاں تو ہو رہی ہیں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا مگر اس کا جواب شاید ہی مل پائے۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قدم قدم پر چیلنجز، بحران اور نازک دور ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ہر واقعے اور دور کے ’’کیا، کیوں اور کب‘‘ کی صورت میں اپنے ہی سوالات ہوئے ہیں اور شاید ہی ان میں سے کسی سوال کا جواب ملا ہو۔ تاریخ کیا ہے بس سوالات کا ایک ایسا جنگل ہے جس میں موجود ہرسوال، جواب کی منزل سے ہمکنار نہ ہوسکا۔ یہاں ہر بااثر اپنے حصے کا جواب دیے بغیر ایک سوال اُٹھاتا ہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے سوال اُٹھنا شروع ہوئے اور اب تک ہر موڑ اور ہر دور کے سوال اُٹھتے اور جواب ملے بغیر یادوں کی لوح سے مٹتے رہے ہیں۔ سیاست دان فوجی حکمرانوں سے اور فوجی حکمران سیاسی حکومتوں سے سوال پوچھتے رہے اور تاریخ ان دونوں کے آگے سراپا سوال رہی مگر مجال ہے کہ کوئی ایک جواب حاصل کر پائی ہو۔
پاکستان کے حکمران طبقات میں کوئی مظلوم نہیں رہا۔ اپنے اپنے دور میں سب بہتی گنگا سے مستفید ہوتے رہے۔ سب کا اپنا نظری�ۂ ضرورت رہا۔ سب نے بصیرت کو راہنما بنانے کے بجائے ایڈہاک ازم سے کام چلانے ہی میں عافیت سمجھی۔ مرضی کا آئین اور مرضی کا قانون اور مرضی کا احتساب رائج رہا۔ ہر اصطلاح کو نظریہ ضرورت کے تحت مرضی کے معانی ومفاہیم پہنائے جاتے رہے۔ ہر دور کا قائد اعظم اور اقبال بھی اپنا رہا۔ ہر دور کی ضرورت کے تحت قائد اعظم کی تقاریر اور علامہ اقبال کے اشعار کو اہمیت ملتی رہی۔ ایک دور کا محبوب شعر ’’سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ، جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو‘‘ رہا تو وہ دور بدلتے ہی ’’جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو، جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ پسندیدہ شعر قرار پایا۔ کچھ یہی حال قائد اعظم کے اقوال اور تقریروں کا رہا۔ ہر طبقے کے الگ الگ اچھے اور برے ڈکٹیٹر رہے۔ جنرل ضیاء الحق کو ناقابل معافی سمجھنے والے بھولے سے ہی جنرل پرویز مشرف اور ایوب خان کا ذکر کرتے ہیں۔
یہ رویہ پاکستان کے قیمتی ماہ وسال چاٹ گیا یہاں تک کہ ستر برس کا عرصہ دبے پیروں گزر گیا۔ جب پاکستان قائم ہوا تو یہ ایک دور کی تشکیل نو کے دن تھے برطانیہ کا سورج غروب ہورہا تھا اور اس کی جگہ امریکا لے رہا تھا۔ دنیا کی ایک نئی تقسیم اُبھر رہی تھی اور نئے بلاک وجود میں آرہے تھے۔ یہ دور بھی اب کہن زدہ ہو کررہ گیا ہے اور اس کے ملبے پر ایک اور دور کی بنا پڑ رہی ہے مگر پاکستان وہیں کا وہیں ہے۔ سوالات وہی پرانے، طبقات وہی ہیں اور سب پرانی ڈگر پر رواں دواں ہیں۔ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہجوم آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ جو حساس موضوعات اور مسائل پچاس کی دہائی میں ہڑتالوں، احتجاج، کرفیو، اور کشیدگی حتیٰ کہ پھانسی کی سزاؤں کا باعث تھے آج بھی پوری طرح سلگ رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں نظریہ ضرورت کو ساحلِ کراچی پر سمندر بُرد کر دیا جائے۔ ایک نئی صبح کا آغاز کیا جائے۔ مرضی کے قانون اور آئین کے سلسلوں کو دفن کر دیا جائے اپنی مرضی اور منشا کو قانون وآئین کے تابع کر دیا جائے۔ یہ معاشرے کے تمام طبقات کی اجتماعی ضرورت ہے۔ ایک ’’میگنا کارٹا‘‘ یعنی منشور اعظم کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ بالادستی پر اصرار ترک کردی جائے اور ملک میں ایک قوم کی تشکیل نو کے مل جل کر کام کرنے کا عزم کیا جائے۔
مغرب کی بالادستی چیلنج ہو چکی ہے۔ مغرب کی تہذیب، سیاسی نظام اور ثقافت بھی چینلجز کا سامنا کر رہی ہے۔ شاید دنیا میں موجودہ مغربی جمہوریت بھی سکہ رائج الوقت قرار نہ پائے۔ بلاشبہ پارلیمانی جمہوریت ایک اچھا نظام ہے جس میں عوام کی رائے ملکی نظام میں زیادہ اچھی طرح منعکس ہوتی ہے مگر یہ کہہ دینا خود فریبی ہے کہ دنیا میں ہر ملک اور قوم کی ترقی کی اول آخر وجہ مغربی جمہوریت ہی تھی۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جو مغربی جمہوریت کو اپنائے بغیر ترقی کے اوجَ کمال پر پہنچ گئے ہیں۔ یونی پولر دنیا کی واحد طاقت امریکا کو ترقی کی دوڑ میں چیلنج کرنے والا چین مشرق بعید کے بہت سے ملک معاشی ترقی کی راہوں پر اپنے مخصوص نظام کے ساتھ بگٹٹ دوڑ رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اجتماعی دانش کے نظام کو اپنانے کی تیاری کرنی چاہیے ایسا نظام جہاں کوئی کسی پر بالادست نہ ہو۔ سب پر قانون اور آئین بالادست ہو۔ دھرنے والوں کے سوال کے بعد میاں نوازشریف کے سوال پر منیر نیازی کا یہ شعر ہی صادق آتا ہے ۔
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے