پشاور میں دہشت گردی اور امریکی الزامات

352

پاکستان نے ایک بار پھر امریکی الزامات مسترد کردیے کہ افغانستان میں حملے پاکستان کی معاونت سے ہو رہے ہیں اور پاکستان دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ جمعرات کو ایک غیر ملکی خبر ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی الزامات کے برعکس پاکستان پر حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں ۔ اگلے ہی دن جمعہ کو اس کا ایک اور ثبوت سامنے آگیا۔ 12ربیع الاول کے موقع پر پوری قوم جشن منا رہی تھی کہ پشاور میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا جس میں 9افراد جاں بحق اور 32زخمی ہوئے ان میں 6طلبہ بھی شامل ہیں جو ہاسٹل میں موجود تھے۔ جوابی کارروائی میں 3 حملہ آور بھی مارے گئے اور بعض اطلاعات کے مطابق ایک کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ اس موقع پر پشاور کی پولیس اور فوج نے جس طرح بروقت کارروائی کی وہ قابل تعریف ہے ورنہ جانی نقصان بہت زیادہ ہوتا۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق یہ حملہ افغانستان سے کیا گیا جس کے ثبوت افغان ڈی جی ایم او ( ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ) کو دے دیے ہیں ۔ اس حملے کی منصوبہ بندی تحریک طالبان پاکستان نے کی جس کا تعلق فضل اللہ گروپ سوات سے بتایا جاتا ہے۔ حملہ آور حملے کے دوران بھی افغانستان میں موجود اپنے ساتھیوں سے رابطے میں تھے اور ان کے قائد نے اپنے کان سے موبائل فون لگا رکھا تھا جس پر وہ اپنی کارروائی کی خبریں دے رہا تھا۔ اس زرعی ڈائریکٹوریٹ میں طلبہ کا ہاسٹل بھی ہے جس میں حملے کے وقت 50 طلبہ موجود تھے تاہم عام تعطیل کے باعث زیادہ تر طلبہ اپنے گھروں کو گئے ہوئے تھے۔ حملہ آوروں نے برقعے پہن رکھے تھے۔ دروازے پر روکا گیا تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ حملہ آوروں کی خود کش جیکٹس پھٹی نہیں ورنہ اور تباہی ہوتی۔ پشاور کی یونیورسٹی روڈ پر واقع زرعی ڈائریکٹوریٹ حملہ آوروں کے لیے بڑا آسان ہدف تھا کیوں کہ یہ علاقہ عموماً سنسان رہتا ہے۔ افغانستان کے ڈی جی ایم او ز ایک وفد کے ساتھ اس وقت پاکستان میں ہیں چنانچہ ان کو افغانستان سے کیے گئے اس حملے کے ثبوت فوری طور پر دے دیے گئے ہیں لیکن امریکا اور اس کی مدد سے کابل کے تخت پر براجمان صدر اشرف غنی کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات افغانستان کی طرف سے ہو رہے ہیں ۔ 12ربیع الاول کے دن کو مسلمانوں میں ایک تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ اسی ماہ میں رسول اکرمؐ کی ولادت اور وصال ہوا۔ ویسے تو دہشت گردی کسی بھی موقع پر غیر اسلامی اور قابل مذمت ہے لیکن عیدین اور 12ربیع الاول کے موقع پر خونریزی کا واضح مطلب یہ ہے کہ دہشت گردوں کا اسلام اور انسانیت سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ یہ اسلام سے خارج ہیں اور خوارج اور قرامطہ کے پیروکار ہیں۔ بیشتر دہشت گردوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے جہاں گزشتہ 16سال سے امریکا کی فوج کا قبضہ ہے۔ اس نے اب تک وہاں کیا کرلیا اور کیوں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا صفایا نہیں کیا۔ ملا فضل اللہ ہو یا حقانی نیٹ ورک، یہ سب افغانستان کے محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں اور الزام بھی پاکستان پر۔ افغانستان میں ناٹو افواج کے امریکی سربراہ جنرل نکلسن نے ایک بار پھر پاکستان کو دھمکی دی ہے اور یہ کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے انتباہ کے باوجود پاکستان نے اپنی سرشت میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تو صلیبی جنگ چھیڑی ہوئی ہے اور اسلام فوبیا میں اعلانیہ مبتلا ہیں ۔ پاکستان چونکہ اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویدار ہے اس لیے اسلام دشمنوں کا نشانہ بنا ہوا ہے چنانچہ الزام لگانے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی الزامات پر ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان میں کوئی دہشت گرد گروپ نہیں ہے اور اگر حقانی نیٹ ورک یا کوئٹہ میں طالبان کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات ہیں تو فراہم کرے، ہم کارروائی کریں گے۔ شاہد خاقان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی ناکامی سے دو چار ہوگی۔ اور اب تک یہی ہو رہا ہے۔ ٹرمپ ہی کیا 2002ء سے افغانستان میں جاری امریکی پالیسیاں بری طرح ناکام رہی ہیں اور اس ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر شرمندگی چھپائی جارہی ہے۔ امریکی جنرلوں سے بھی پوچھا جارہا ہے کہ کئی کھرب ڈالر ضائع کر کے کیا حاصل کیا گیا۔ اس کے جواب سے بچنے کے لیے جنرل نکلسن جیسے لوگ پاکستان پر الزام دھر دیتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ نائن الیون کے بعد پاکستان کے لیے امریکی اقتصادی اور فوجی امداد بھی 2ارب 20کروڑ سالانہ سے کم ہو کر 35کروڑ ڈالر رہ گئی ہے۔ امریکی کانگریس کا کہنا ہے کہ پاکستانی امداد میں کمی افغانستان میں ’’ سرحد پار دہشت گردی‘‘ کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن کے مفادات کو متاثر کرسکتی ہے۔ لیکن سرحد پار سے دہشت گردی تو پاکستان کے خلاف ہو رہی ہے۔ پاکستان اسے روکنے کے لیے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے علاوہ اور بھی کئی اقدامات کررہا ہے لیکن پاکستان میں چھپے دہشت گرد افغانستان سے ہدایت حاصل کررہے ہیں۔ اب تو اس دہشت گردی میں بھارتی ایجنسی را بھی ملوث ہوگئی ہے اور اسے امریکا اور کابل حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے ڈانڈے اسرائیل سے بھی ملتے ہوں کیوں کہ صدر ٹرمپ کے اپنے گھر میں یہودی پرورش پا رہے ہیں۔