جیت

186

دیا خان بلوچ
میرا نام اورنگزیب ہے ،میں تیسری جماعت کا طالبعلم ہوں۔میں ایک پرائیوٹ اسکول میں پڑھتا ہوں، آج اسکول میں بہت مزہ آیا۔کیوں کہ آج میں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ہم سب اسکول میں پڑھنے اور سیکھنے جاتے ہیں۔لیکن جو سبق میں نے آج سیکھا ہے شاید میں پہلے کبھی نا سیکھ پایا تھا۔سر احمر ہم سب کے پسندیدہ استاد ہیں۔وہ جب بھی کلاس میںآتے ہیں تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔اس وجہ سے وہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔آج جب سر احمر کلاس میں آئے تو انہوں نے کہا:
آج ہم ایک کھیل کھیلیں گے۔سب بچے بہت خوش ہوئے اور تیا ر ہو گئے۔ہمارے استاد نے کہا چھ بچے یہاں سامنے آجائیں۔جب چھ بچے ان کے پاس آگئے تو انہوں نے سب کو ایک ایک غبارہ دیا اور کہا کہ اس کو پھلائیں۔سب نے اپنے اپنے غباروں کو پھلا لیا۔تب استاد نے ان کو ایک ایک پن دی او ر کہا کہ آ ٓپ کے پاس ایک منٹ کا وقت ہے،جس کا غبارہ صحیح سلامت رہا وہ اس مقابلے کا ونر ہوگا۔
سب بچوں نے پن کے ذریعے ایک دوسرے کے غبارے پھاڑ دیئے۔نتیجتاً سب کے غبارے پھٹ گئے تھے۔یہ سارا کام ایک منٹ سے بھی پہلے ہو گیا تھا۔ہم سب ہنسنے لگے تھے کہ اتنی جلدی کھیل ختم ہوگیا تھا۔
تب استاد نے پوچھا:
کیا میں نے یہ کہا تھا کہ آپ ایک دوسرے کے غبارے پھاڑیں؟
سب نے کہا:
نہیں۔
تو پھر آپ سب نے ایک دوسرے کے غبارے کیوں پھاڑے؟کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ آپ سب آرام سے کھڑے رہتے اور ایک دوسرے کے غبارے نا پھاڑتے تو آپ سب ونر ہوتے۔کیا یہ اچھی بات نہیں تھی کہ آپ سب جیت جاتے؟
جی ،یہ تو بہت اچھی بات ہوتی۔لیکن ہم نے یہ سوچا ہی نہیں۔سب ایک ساتھ بولے تھے،وہ سب حیران تھے کہ ہم نے ایسا کیوں نہیں سوچا۔
پھر سر احمر بولے:
اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ اگر خود آگے نہیں بڑھ سکتے تو آپ چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا بھی آگے نا بڑھ سکے۔ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔اگر کوئی ترقی کررہا ہے تو ہمیں اسے آگے بڑھنے میںمدد کرنی چاہئے۔دوسروں کی ترقی اور کامیابی پہ خوش ہونا چاہئے۔یہ ہماری ترقی کا راز بھی ہے،جب ہم دوسروں کے لئے راستے ہموار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے بھی راستے نکال دیتے ہیں۔
ہم سب نے آج عہد کیا کہ ہم دوسروںکی مدد کریں گے ۔
آج میں نے اپنی زندگی کا سنہرا سبق سیکھا تھا۔مجھے کسی سے حسد نہیں کرنا تھا بلکہ سب کی ترقی اور کامیابی میں ان کاساتھ دینا تھا۔