ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
(گزشتہ سے پیوستہ)
مرغوب احمد نے بیٹی کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتے د یکھا تو ان کو یقین ہو گیا کہ وہ بازی ہار چکے ہیں زاہد سعید نے بہلا پھسلا کر رابیل سے اپنا مطالبہ منوا لیا ہے ۔ انہوں نے زبان سے ایک لفظ بھی نہ کہا ۔ دل پکڑ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں آ گئے ۔ انہیں رابیل کی اطاعت وفرمانبرداری پر بڑا مان تھا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ رابیل کسی بھی قدم اٹھانے سے پہلے باپ سے ضرور مشورہ کرے گی ۔ مگر ان کا یہ مان آج ٹوٹ گیا ۔ اعتبار کی عمارت لمحوںمیں ڈھ گئی ۔ آج کے بعد تو انہیں زاہد سعید کا بھی اعتبار نہیں رہا تھا ۔نہ جانے ان کو کیوں یہ یقین ہو گیا تھا کہ زاہد سعید بہت جلد رابیل کی زندگی سے نکل جائے گا ۔ اسی احساس نے ان کو دل کے درد میں مبتلا کر دیا وہ اپنے کمرے میں خاموشی سے لیٹے اور ہر قسم کی فکروں سے آزاد ہو گئے ۔ رابیل شرمندگی اور نا کردہ جرم کے احساس سے اتنی نڈھال تھی کہ اس کے قدموں میں اپنی اتنی جان نہ رہی کہ وہ باپ سے اپنی غلطی کی معافی مانگ لیتی ۔ وہ شرمندہ شرمندہ وہیں بیٹھی رہی ۔ اسے احساس ہوا کہ بعض اوقات انسان جذباتی ہوکر ایسے فیصلے کرتا ہے جو زندگی بھر کا پچھتاوا بن جاتے ہیں اور زندگی ایک بوجھل حقیقت بن کر سلگ سلگ کر گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ وہ بوجھل زندگی گزارنا نہیں چاہتی تھی ۔ وہ زاہد سعید کو گنوانا نہیں چاہتی تھی ۔ مگر مرغوب احمد کی اچانک موت نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ اسے اس نقصان کا شدت سے احساس ہوا جو نقصان اس نے جذباتی ہو کر کیا تھا ۔ اپنے ڈیدی سے مشورہ کیے بغیر ۔ اور ڈیڈی صرف اس کے چہرے کی پھیکی رنگت سے اس کے دکھ کو جان گئے ۔ اپنے کمرے میں جاتے ہی ان کو دل کے جان لیوا درد نے ان کو ہر فکر سے بے نیاز کر دیا ۔ رابیل کے ڈیڈی کی موت کے صدمے اور اس کے بعد زاہد سعید کی بے رخی اور سرد ہری نے گھائو اس کے اندر لگانے شروع کر دیے تھے ۔ رابیل کے ٹالنے پر اس نے کھلم کھلا طلاق کی دھمکی دی ۔ اب اس کی نفرت بھری نظریں رابیل کی خود اعتمادی کو ریزہ ریزہ کر رہی تھیں ۔ وہ زخم زخم تھی ۔ باپ کی موت کا ذمہ دار وہ اپنے آپ کو سمجھتی تھی ۔ اس کی ساتھی دوستوں نے ایسے وقت میں اس کو بڑا حوصلہ دیا ۔ وہ مرغوب احمد صاحب کی پینشن کے سلسلے میں جب بھی ہائی کورٹ گئی اس نے ہر مرتبہ زاہد سعید کو کسی نہ کسی نئی وکیل کے ساتھ دیکھا ۔ وہ ہمیشہ بوجھل دماغ اور بے چین روح کے ساتھ واپس آئی ۔
پلکوں کی باڑھ پر آنسو روک کر واپس پلٹتی تو وہ سوچتی کہ مرد میں کتنا زہر ہوتا ہے ۔ عورت کو کس کس طرح ڈستا ہے ۔ کیسے کیسے اذیت دیتا ہے ۔ کبھی زبان کے زہر سے کبھی ہاتھ پائوں سے اذیت دیتا ہے ۔ وہ جب گھر آتا رابیل کے سامنے دانستہ کسی نہ کس وکیل خاتون کی خوبصورتی کا ذکر کرتا ہے ۔ یا اخبار میں ان اشتہاروں پر نشان لگاتا جو کسی میرج بیورو کی طرف سے دیے گئے ہوتے ۔ رابیل بڑی خاموشی سے یہ سارا تماشا دیکھتی رہتی ۔ وہ بڑی راز داری سے اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کو چھپانے کی کوشش میں لگی رہتی ۔ وہ جان بوجھ کر کوئی ایسی بات کہتی جس سے وہ لڑ جھگڑ کر کئی کئی ہفتوں کے لیے غائب ہو جاتا ۔ رابیل خود بھی یہی چاہتی تھی ۔ وہ کسی طرح اپنی اولاد کے قتل پر راضی نہیں ہوئی تھی ۔ اس کے چہرے پر ممتاکا عجیب سا نور پھیلنے لگا تھا ۔ بعض اوقات تو وہ اپنے چہرے پر بکھرنے والی اس روشنی کو دیکھ کر حیرا ن رہ جاتی جو دن بدن اس کے رخساروں پر بکھرتی جا رہی تھی ۔ اس کے چہرے کی سیاہی کہیں گم ہو گئی تھی ۔ چیچک کے داغ نہ جانے کہاں چھپ گئے تھے ۔ سانولا رنگ سفیدی میں بدلتا جا رہا تھا ۔ وہ خود حیران تھی کہ ماں بننا اتنا خوبصورت عمل ہے ۔ جو انسان کی پوری شخصیت کو تبدیل کر دیتا ہے ۔
زاہد سعید اب کئی کئی ماہ کے لیے غائب ہونے لگا ۔ رابیل بھی اپنا وقت گزارنا چاہتی تھی ۔ زاہد سعید کے وجود سے چھپ کر ۔ اس نے اپنی ایک بیوہ رشتہ دار خاتون کو اپنے ساتھ رکھ لیا تھا جو پیشے کے اعتبار سے نرس رہ چکی تھی ۔ وہ رابیل کی دیکھ بھال بھی کر سکتی تھیں اور وقت آنے پر اس کو اسپتال بھی پہنچا سکتی تھیں ۔ زاہد سعید نے ایک مالدار آسامی سے شادی کر لی تھی ۔ وہ ایک سن رسیدہ کنواری پروفیسرخاتون تھیں جو مقامی کالج میں پڑھاتی تھیں ۔ زاہد سعید نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تھا اپنی چرب زبانی اور لفاظی سے ان کو اپنا اسیر کر لیا اور ایک ہفتے میں دونوں کی شادی ہو گئی ۔
صائقہ کی پیدائش کی خبر سن کر زاہد سعید اچانک اسپتال پہنچ گیا اور اس نے رابیل پر آوارگی کا الزام لگا کر اس کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ رابیل اب زاہد سعید سے طلا ق لینا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ بیٹی کی ماں تھی ۔ اور ماں پر مطلقہ ہونے کا الزام آئندہ اس کی بیٹی کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا تھا ۔ اس نے اپنی بے شمار قربانیوں اور محبت کا واستہ دے کر اس کو طلاق دینے سے باز رکھا ۔ مگر وہ پیر پٹختا ہوا ہمیشہ کے لیے رابیل کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ رابیل خود بھی زاہد سعید سے کسی قسم کا واسطہ رکھنا نہیں چاہتی تھی ۔ صرف نام سے وابستہ رہنا چاہتی تھی ۔ اس نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا ۔ وہ خودصائقہ کی دیکھ بھال کرتی ۔ گردن توڑ بخار کے اثرات سے صائقہ کے پیروں پر اثر ہوا ۔ ڈاکٹر کی غلط دوا نے اس کے پیروں میں وقتی معذوری پیدا کر دی ۔مگر رابیل نے اپنی بچی کو ہر قسم کی محرومی کے احساس سے بچائے رکھا ۔ صائقہ باپ کی طرح خوبصورت تھی ۔ زاہد سعید نے تیسری شادی ایک ڈاکٹر سے کی تھی جو امراض نسواں کی ماہر تھی اور ایک دولتمند خاتون تھی ۔ رابیل نے اپنی بیٹی کو باپ کے بارے میں بالکل درست معلومات فراہم کی تھیں ۔ اپنی نا سمجھی اور جذباتی فیصلے اس سے ہونے والے عظیم نقصان کے بارے میں بھی اس نے بہت تفصیل سے صائقہ کو بتایا تھا ۔ گریجویشن کے بعد صائقہ کی خواہش پر اس کو وکالت پڑھنے کی اجازت دیدی تھی ۔ عبدالرحمن صاحب رابیل کے والد پر خلوص دوستوں میں سے تھے ۔ اب وہ سینئراور کہنہ مشق وکیل تھے ۔ مرغوب احمد کے انتقال کے بعد انہوں نے رابیل کی بالکل اسی طرح سر پرستی کی جیسے مرغوب احمد کرتے صائقہ کی تعلیم کے سلسلے میں وہی مشورے دیتے تھے ۔ وکالت پڑھنے کے لیے انہوں نے ہی صائقہ کو آمادہ کیا تھا ۔ وکالت کی ڈگری لینے کے بعد صائقہ نے عبدالرحمن صاحب کے ساتھ دو سال تک کام کیا ، انہوں نے صائقہ کو وکالت کی اونچ نیچ کے ساتھ سارے اسرار و رموز سمجھائے ۔ کئی ایک مشکل کیس حل کرنے میں اس کی مدد کی ۔ فیملی کورٹ میں اس بے حد خوبصورت وکیل کی دھوم مچی ہوئی تھی ۔ جس کو لوگ عبدالرحمن صاحب کی بیٹی سمجھتے تھے ۔ بار ایسو سی ایشن کے ڈنر میں جو زاہد سعید کے جج بننے کی خوشی میں دیا گیا تھاصائقہ نے اپنے باپ کو پہلی مرتبہ دیکھا ۔ باپ کو دیکھ کر نہ تو اس کے خون نے جوش مارا اور نہ کوئی بے کلی محسوس کی ۔ بلکہ وہ ان تمام زیادتیوں کا بدلہ لینے کے لیے اس میدان میں اتری تھی جو زاہد سعید نے اس کی ماں اور خود اس کے ساتھ کی تھیں ۔ عبدالرحمن صاحب نے صائقہ کا تعارف زاہد سعید سے ایک ذہین وکیل کی حیثیت سے کرایا ۔ گلابی رنگ کے سادہ سے کاٹن کے سوٹ میں صائقہ کا دمکتا ترو تازہ چہرہ شفق رنگ سعاعوں سے اجلا اجلا نظرآ رہا تھا ۔ زاہد سعید کے لیے اتنا حسین اور خوبصورت چہرہ بہت دن بعد سامنے آیا تھا ۔ تین سن رسیدہ بیویوں کو دیکھ کر وہ بیزار ہو گیا تھا ۔ اس کے شیطانی دماغ نے صائقہ کو گھیرنا چاہا ۔ اس کے لیے اس نے اپنے لہجے میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ صائقہ نے ناک سکیڑ کر دوسری طرف منہ کر لیا ۔ اہد سعید اس گستاخ حسینہ کے اس انداز پر تلملا گیا ۔
اس کے لیے تو یہ انداز بالکل نیا تھا ۔ وہ تو ان لوگوں میں سے تھا جن کے پیچھے عورتیں اب بھی دیوانی تھیں ۔ ذرا سے اشارے پر سب کچھ لٹانے کے لیے تیار ہو جاتی تھیں ۔ اس کے شیطانی ذہن نے نئے نئے منصوبے بنانا شروع کر دیے ۔ دوسرے دن فیملی کورٹ کے جج کی حیثیت سے زاہد سعیدکا پہلا دن تھا ۔ پیش کار نے مقدمات کی فہرست جج کے سا منے پیش کی ۔ سر فہرست جو مقدمہ دائر کیا گیا تھا وہ مسز رابیل کی طرف سے اپنے شوہر زاہد سعید پر کیا گیا تھا ۔ مسز رابیل کی طرف سے جو وکیل ان کا مقدمہ لڑ رہی تھی وہ ان کی اکلوتی بیٹی صائقہ زاہد تھی ۔ وہی خوبصورت وکیل جس کو جج صاحب اپنی چوتھی بیوی بنانا چاہتے تھے ۔ (ختم شد)