عقل کا تقاضا!

440

دانش مندی کا تقاضا ہے کہ اچھے اعمال اور اچھے اقوال کا تعلق حلیف سے یا حریف سے ان پر عمل کرنا چاہیے، خوش نصیب ہے وہ قوم جس کے حکمران، دانش ور اور ملکی اداروں کے حکام اچھی روایات کو خوش نظری سے دیکھتے ہیں اور خوش دلی سے ان کی تقلید کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ’’بڑے‘‘ ان پر توجہ نہیں دیتے، شاید ان پر عقل کُل ہونے کا بھوت سوار ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی ادارے کا سربراہ ہوتا ہے جب تک بااختیار ہوتا ہے اسے ہر سمت بُرا ہی بُرا دکھائی دیتا ہے۔ اس خرابی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شخص اور شخصیت کے فرق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ عام آدمی شخص کہلاتا ہے مگر شخصیت کے رتبے کا اہل وہ ہوتا ہے جس کا ماضی بے داغ ہو۔ میاں نواز شریف ایوان اقتدار سے بے دخل کیا ہوئے، سارے نظام ہی کو نظام سقّا قرار دے ڈالا۔ تیس پینتیس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے مگر اب ملک کی پس ماندگی اور قوم کی بدحالی کا ذمے دار حکمرانوں کی کرپشن کو ٹھیرا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ احساس ہی نہیں کہ وہ اعتراف جرم کررہے ہیں، اپنی تکذیب کررہے ہیں، اپنی پالیسیوں اور طرز حکمرانی کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ وہ قوم کو یہ باور کرانے کی جدوجہد کررہے ہیں کہ اگر عدلیہ انہیں نااہل قرار نہ دیتی تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادیتے، پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ اور خوش حال ممالک میں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے تیس پینتیس برس میں ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی ستائش کی جائے، جس کا صلہ دیا جائے، اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جاسکتی ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ سیاسی ناگوں کا سر کچل دیا جائے اور سیاسی ریچھوں کو نکیل ڈال دی جائے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے سبھی ادارے سرکش، خودسر، بے حس، بے شعور اور نام و نمود کی حرص و ہوس کے جذام میں مبتلا ہیں۔ عوام کا مینڈیٹ جس کے لیے باب اقتدار وا کرتا ہے وہ فرعون بن جاتا ہے، جبر و تشدد کو اپنا حق سمجھتا ہے، وکلا جھوٹ کو اپنا حق قرار دیتے ہیں اور جج صاحبان قریق ثانی بن جاتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں غلطی کو تسلیم کرنے کی روایت ہی نہیں، جو شخص اپنی غلطی مان لے اس کا شمار صف احمقاں میں ہوتا ہے۔ سو، غلطی پر ڈٹ جانا ہی سیاسی مصلحت اور دانش مندی سمجھا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہر ادارے کا سربراہ سبکدوش ہونے کے بعد اپنے ادارے کو قصور وار قرار دیتا ہے اور اپنے اقبال جرم پر ذرا سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔ شاید ہی کوئی چیف جسٹس آف پاکستان ایسا ہوگا جس نے نظام عدل کو ناقص قرار نہ دیا ہو یہ کیسی حیران کن بات ہے کہ جب تک وہ مسند انصاف پر جلوہ افروز رہتے ہیں انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ موجودہ نظام عدل انصاف فراہم کرنے کا اہل نہیں۔
سوال یہ ہے کہ نظام عدل میں موجود سقم کون دور کرے گا؟؟؟۔ کون اصلاح کا بیڑا اٹھائے گا؟؟؟۔ آدمی کو ذمے داری کا احساس ہو، احتساب کا خوف ہو تو عقل کے بند دریچے کھل جاتے ہیں، پتھروں سے اَٹے راستے کہکشاں بن جاتے ہیں، نظام عدل سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ضرورت سے زیادہ ہے اس لیے انصاف فراہم کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اگرچہ یہ بیانیہ عذر لنگ ہے بلکہ یہ کہنا قرین انصاف ہوگا کہ لنگڑا لولا عذر ہے۔ ایسا عذر جس کا سر پیر ہی نہیں جس کے پیر نہ ہوا سے لنگ کا عارضہ کیسے لاحق ہوسکتا ہے۔ ساری خرابی نیت کے فتور کی ہے۔ نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کی حکومت نے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے معمولی جرائم پر مقدمہ چلانے کے بجائے جرمانے کی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئے فیصلے کے تحت گالی دینے اور الزام تراشی کے جرم پر دو ہزار درہم، خودکشی کی کوشش کرنے پر ایک ہزار دینار، فون کے ذریعے چھیڑ چھاڑ اور تنگ کرنے پر 5 ہزار دینار کا جرمانہ، ہوٹل کے کمرے کا کریہ ادا نہ کرنے پر بیس ہزار درہم جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ ایک لاکھ درہم کا جعلی چیک دینے پر پانچ ہزار درہم جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ اگر ہمارے ہاں بھی معمولی جرائم پر مقدمات چلانے کے بجائے جرمانے عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا جائے تو عدالتوں میں مقدمات کے لگے انبار کم ہوسکتے ہیں مگر ہم لوگ اچھے کاموں اور اچھی باتوں کی تقلید کرنا پسند نہیں کرتے۔ پسند اور ناپسند کی روایت کو ختم کیے بغیر ہم مہذب قوم نہیں بن سکتے۔