یورپی آرمی کا قیام: دنیا کوہے پھر سے معرکہ روح و بدن پیش

553

(ہلال احمد تانترے (مقبوضہ کشمیر

جس طرح ایک انسان خواب دیکھتا ہے اور اُن خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں دن رات محنت و کوششیں کرتا ہے، اُسی طرح سے عالمی سیاسیات میں اقوام بھی خواب دیکھا کرتے ہیں اور اُن خوابوں کو پُر کرنے میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مسلم امت کے لیے بھی ایک حقیقی خواب پُر کرنے کی ہدایات و معقول طریقہ کار قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ اس طرح سے قوموں کی سطح پر دو قسم کے خواب اس دنیا میں دیکھے جاتے ہیں، ایک اسلام کے بول بالے کا دوسرا طاغوت کا۔ اب یہ ایک فطری اصول ہے کہ جس فریق کی محنت و کوششیں دوسرے فریق کے مقابلے میں زیادہ اور موثر ہوں گی وہی اپنے خواب کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ رہا وہ فریق جس کے اندر خلفشار و رسا کشی ہو وہ بس خواب ہی دیکھتا رہ جائے گا۔ اس کو کسی غیبی طاقت کا کتنا بھی یقین ہو، اگر وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کے عملی میدان میں اتر نہ جائے، اُس کا کسی غیبی طاقت کا کیا اپنے سامنے توپوں اور ٹینکوں سے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک فطری اصول ہے اور اس کو سمجھنے میں نہ ہی کوئی دقعت ہونی چاہے اور نہ ہی کسی فریق کو اپنے مخالف فریق کی ترقی سے ملول ہونا چاہے۔ ملول اگر ہونا ہے، تو وہ اپنی ناکارہ کارکردگی پر، اپنے اندر پنپتے خلفشاروں پر، اپنے اندر اتحاد و اتفاق کے نہ ہونے پر، اپنے اندر حصولِ تعلیم کے فقدان پر، اپنے اندر راہنما اصولوں کو پسِ پشت میں ڈال کر یا اپنے اندر باقی ماندہ ضروریاتِ انقلاب و امامت کو نہ اپنانے پر۔
امریکا و یورپ پسپا ہونے جارہا ہے اور اِس بات کا ادراک وہاں کے دانشور طبقے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی ہے۔ اور اس پسپائی کی وجہ اس چیز کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہاں پر سماجی روابط کا فقدان ہے، لوگ اپنی انفرادی زندگی میں بد مست ہو گئے ہیں، مادیت کا غلبہ ہے، جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور اخلاقی نظام کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ امریکا و یورپ کی اس پسائی کا انتظار بہت سے اور ملکوں کو ہے، جو آئندہ وقت میں اور دنیا کی ’جاگیرداری‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں، جس کے لیے وہ اپنی اپنی طرف سے لائحہ عمل بھی مرتب کر رہے ہیں۔ مسلم اُمت کے لیے اسلام کے سوا باقی تمام نظام و نظریات طاغوت کی حیثیت رکھتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہوں یا کسی بھی جگہ پر۔ یہ طاغوت کسی غیر مسلم ملک یا فرد کی حیثیت سے ہی نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کی ایسی خطرنات و شاطر صورتیں ہیں کہ عام مسلمان جن کو پہچان ہی نہیں سکتا، بلکہ کبھی کبھار اُس کو اسلام ہی کے تناظر میں لے سکتا ہے۔ تحریکی کارکنا ن کے لیے یہ بات لائق اعتناء نہیں ہونی چاہے کہ اس طاغوت کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے لیے قرآن کا سہارا بھی لیا جا سکتا ہے۔ درج ذیل اقتباسات میں ہم طاغوت ہی کی ایک نئی اور منظم چال کا جائزہ لیں گے، جس کے بارے میں مسلم اُمت کو سوچنا چاہے کہ اسلام کی مخالف قوتیں کتنی موثر و منظم طریقے سے اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کی کو ششوں میں مصروف ہیں۔
حال ہی میں عالمی سیاسیات کی دنیا میں ایک اہم واقع رونما ہوا، جس کی طرف میڈیا میں کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ گزشتہ مہینے کی تیرہ تاریخ کو23 یورپی اتحاد (European Union) کے ممالک نے ایک اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے یکجا طور پر یورپی آرمی (European Army ) کے قیام کا اہم اتحاد قائم کر دیا۔ برسلز میں ایک خاص میٹنگ کے دوران اس بات کا اعلان کیا گیا کہ نئے اتحاد کے تمام ممالک دفاعی اخراجات ومنصوبہ بندی کی خاطر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں گے، اور الگ الگ دفاعی اخراجات کے بجائے ایک ساتھ اپنے اپنے دفاعی نظام کو بامِ عروج تک پہنچائیں گے، جس کے لیے علیحدہ طور پر سرحدوں کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک ساتھ ایک دوسرے کی حفاظت کا انتظام کرنا ہے۔ اِن ملکوں نے اپنے دفاعی اخراجات کا بیس فی صد فوجی اعانت میں لگانے کی ہامی بھر لی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملک اپنے بجٹ کا پانچواں حصہ یورپی اتحاد کے تعاون کے لیے صرف کرے گا۔ علاوہ ازیں، اب ہر ملک الگ الگ منصوبوں پر کام نہیں کرے گا، بلکہ منصوبے ایک ساتھ مرتب ہوں گے اور کام بھی ایک ساتھ کیا جائے گا۔ اس میٹنگ میں یورپی دفاعی چندے (European Defense Fund) کے کام کاج کا بھی جائزہ لیا گیا۔
تقریب میں موجود مختلف ملکوں کے مندوبین نے اس معاہدے کے بارے میں اپنے اپنے تاثرات پیش کیے۔ یورپی اتحاد کے ایک اعلیٰ نمائندے کا کہنا ہے کہ: ’’یورپی دفاعی میدان میں یہ ایک جذباتی اور تاریخی لمحہ ہے‘‘۔ جرمنی کے وزیر دفاع نے اس معاہدے کو ’’یورپی اتحاد میں ایک سنگِ میل کی حیثیت‘‘ سے تعبیر کیا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تھنک ٹینک کے اداروں نے اس معاہدے کے بارے میں اپنی آرا پیش کیں۔ روم کے ادارے برائے بین الاقوامی معاملات کے ڈائیریکٹر نے اِس کو ’’طاقت ور کھیل بدلنے والے معاہدے‘‘ سے تعبیر کیا۔ وہیں اٹلی کا ماننا ہے کہ اس معاہدے نے ’’مستقبل میں یورپی طاقتوں کے ایک مضبوط اتحاد کی بنیاد ڈالی‘‘۔ واشنگٹن پوسٹ نے نہتے الفاظ میں اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’’اس ڈیل سے یورپی ممالک اپنے دفاعی معاملات کو وہی نہج دے سکتے ہیں، جیسے کہ یہ ممالک اس سے پہلے اقتصادی و تجارتی معاملات میں ایک اعلیٰ حیثیت رکھتے تھے‘‘۔ کواٹز کا کہنا ہے ’’یہ ایک ذریعہ ہے جس سے یورپی اتحاد ایک زبردست اتحادی آرمی تشکیل دے سکتی ہے‘‘۔
اس نئے دفاعی اتحاد کو دو مختلف صورتوں کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک، اس اتحاد کا ناٹو (NATO) کے ساتھ ممکنہ تفریق و تعاون۔ دوسرا، جرمنی کا سفارتی اور خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ۔ 2004 میں ناٹو معاہدے کے مطابق جملہ ممالک نے اپنے جی ڈی پی کا دو فی صد حصہ قومی دفاعی اخراجات پر خرچ کرنے کی حامی بھر ی تھی۔
باقی صفحہ9پر
ہلال احمد تانترے (مقبوضہ کشمیر)
لیکن اس کے بالمقابل اسٹاک ہوم بین الاقوامی تحقیقی ادارے برائے امن (Stockholm International Peace Research Institute’) کی پچھلے سال کی رپوٹ کے مطابق ناٹو ممالک کے 28 فریقین میں سے صرف 4اپنے جی ڈی پی کا 4 فی صد سے زیادہ دفاعی اخراجات میں خرچ کرتے ہیں۔ اس امر کی شکایت امریکا کے دونوں صدور (موجودہ اور سابقہ) نے کی تھی، کہ جملہ ارکان ممالک اپنے وعدے پر پورے نہیں اترتے۔ مارچ 2016 میں امریکی صدر نے یہ کہا تھا کہ: ’’ناٹو ہماری قسمت سے کھیل رہا ہے اور ہاں ہم یورپ کا دفاع کررہے ہیں، لیکن ہمیں بہت زیادہ اس پر خرچہ ہو رہا ہے‘‘۔ اپنے مطلوبہ اخراجات سے جی چرانے میں بھی کچھ رکن ممالک اپنی طرف سے حق بجانب ہیں۔ ناٹو تو کام کر رہا ہے، لیکن اس کی کمان امریکا کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا کو جہاں جہاں من کر رہا ہے وہاں وہ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے میں ناٹو کو استعمال کررہا ہے۔ باقی ملکوں کو ناٹو اتحاد سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ ناٹو کے ہوتے ہوئے، ایک الگ دفاعی بلاک قائم کرنا اس بات کی نشان دہی کر رہا ہے کہ یورپ میں ایک الگ ملٹری بلاک قائم ہونے کا مقصد ناٹو سے راہ فرار اختیار کرنا ہے اور اپنا ایک الگ بلاک قائم کرنا اور جو آنے والے وقت میں کارگر ثابت ہو، علاوہ ازیں جس کا امریکا سے کوئی دور کا تعلق بھی نہ ہو۔
رہی بات خطے میں جرمنی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی، تو وہ اپنے ہی کچھ الگ خواب دیکھ رہا ہے۔ اس ’خواب‘ کی جانکاری ایک خفیہ دستاویز نے دی ہے، جس کو Der Spiegel نامی ایک میگزین نے رواں مہینے کی 4 تاریخ کو شائع کیا ہے۔ اس دستاویز کے مطابق جرمن آرمی اس سوال پر بڑی گہرائی سے کام کر رہی ہے کہ: ’’یورپ و امریکا کی پسپائی کے بعد کس طرح سے کام کرنا ہے؟‘‘۔ 102صفحات پر مشتمل اس دستاویز کا عنوان Strategic Perspective 2040 ہے۔ اس دستاویز کے تناظر میں ایک خاتون تجزیہ کار انیٹونیا کالی باسانو(Antonia Colibasanu) کا کہنا ہے کہ: ’’اس خفیہ دستاویز کے شائع ہو جانے کا مطلب دنیا کو یہ انتباہ کرنا ہے کہ جرمنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا ہے۔ 70 سال سے جرمنی امریکا کے زیرِ سایہ چل رہا تھا اور کبھی اس نے امریکا کی مخالفت نہیں کی ہے، لیکن جرمنی کے لیے اب یہ وقت ختم ہو چکا ہے‘‘۔ اِدھر جرمنی میں اندرون ملک سیاسی انتشار کو کلیسائی دنیا بھی پسند نہیں کررہی ہے۔ بات بالکل واضح ہے کہ جرمنی اپنے منصوبے ترتیب دے رہا ہے جو بہت ہی خطرناک ہیں۔ یورپی اتحاد کے حالیہ قائم کردہ بلاک میں بھی جرمنی کی ’چمچہ گری‘ کرنے کا صاف اشارہ مل رہا ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح عالمی سیاسیات میں اِس وقت امریکا کر رہا ہے۔