سادگی، معراج انسانیت 

560

حافظ محمد ادریس

محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر لحاظ سے اسوۂ کامل ہے۔ آپؐ نے سادگی کو اپنا شعار بنایا۔ سادگی معراجِ انسانیت ہے۔ آپؐ حاصلِ کائنات ہیں، آپؐ کو اپنے فقر پر ناز تھا۔ اللہ رب العالمین نے انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے اور اسے اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ اللہ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کے لیے سب کچھ مسخر کردیا گیا۔ قرآنِ مجید میں انسان کے لیے تسخیرِ کائنات کاجگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے، بالخصوص سورۂ نحل میں جانوروں سے لے کر دن رات، شمس و قمر اور نجوم و کواکب، دریا و سمندر، خشکی کے جانور اور آبی حیات، سمندری جہاز، ہوا اور بادل غرض ارض و سما کی ہر چیز کو انسان کے لیے مسخر کرنے کا ایمان پرور بیان موجود ہے۔ ان سب کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گِن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔( النحل۱۶:۱۸)
مزید ارشاد فرمایا: وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے۔ (القصص۲۸:۸۳)
تاریخ کے ہر دور میں اور دنیا کے ہر خطے میں فرعون و نمرود اور ہامان و قارون موجود رہے ہیں۔ اگرچہ یہ متعین و معلوم تاریخی شخصیات کے نام ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک مخصوص ذہنیت و کردار کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ ہر دور اور ہر ملک میں موجود ہوتے ہیں، کوئی بڑا فرعون تو کوئی چھوٹا۔ ان کے مقابلے پر اللہ اپنے کسی خاص بندے کو کھڑا کر دیتا ہے، اسی لیے ضرب المثل ہے کہ ’’ہر فرعونے را موسیٰ‘‘۔ نبیِ مہربانؐ قائدِ بشریت، محسن انسانیت، فخر موجودات، سید الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں۔ آپؐ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ نورِ مجسم اور اسوۂ ہدایت ہے۔ آپؐ کو اللہ نے وہ مقام دیا جو کسی اور کو نصیب نہ ہوا لیکن قربان جائیں ختمی مرتبتؐ پر کہ آپؐ سادگی، عجزو انکسار اور غریب پروری کے ایسے مقام پر نظر آتے ہیں جس پر عقل حیران رہ جاتی ہے اور دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ آپؐ جس دور میں فاتح اور حکمران کی حیثیت سے پورے عرب میں غالب اور ساری دنیا میں مشہور ہوگئے تھے اس وقت بھی آپؐ کا عجز اور سادگی دلوں کو مسخر کر لیا کرتی تھی۔
ایک مرتبہ کوئی بدو آپؐ سے ملنے کے لیے آیا تو اس پر شانِ نبوت کا رعب طاری ہوگیا اور وہ کانپنے لگا۔ امام حاکم نے اپنی کتاب میں یہ حدیث نقل کی ہے جو آگے آرہی ہے۔ آپؐ نے بدو کی اس کیفیت کو دیکھ کر محبت بھرے، ملائم لہجے میں اس سے فرمایا: ’’خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں (دنیا کے بادشاہوں کی طرح) بادشاہ نہیں ہوں۔ مجھے تو قریش کی ایک خاتون نے جنم دیا جو اتنی سادہ زندگی گزارتی تھیں کہ خشک گوشت پکا کر کھالیتی تھیں‘‘ (المستدرک)۔ ایک مرتبہ گرمیوں کی دوپہر کو آپؐ کھجور کی بنی ہوئی چٹائی پر استراحت فرما رہے تھے۔ گرمی کی وجہ سے آپؐ نے کرتہ مبارک اتار رکھا تھا۔ آپؐ کے جسمِ اطہر پر چٹائی کے نشانات نظر آرہے تھے۔ ایسے میں آپؐ کے جاں نثار اور ہمارے آقا سیدنا عمر بن خطابؓ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپؐ کے جسم پر چٹائی کے نشانات دیکھ کر بے اختیار آبدیدہ ہوگئے۔ حضرت عمرؓ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک کو جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں غم زدہ دیکھا تو پوچھا: ’’عمر! تم کس بات پر پریشان ہو‘‘؟ عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ ! قیصر وکسریٰ عیاشی میں زندگی گزاریں اور آپؐ یوں مشقت کا سامنا کریں، یہ چیز ہمارے لیے پریشان کن ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اے عمر! کیا تم اس چیز کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے لیے فانی دنیا کی عیش و عشرت ہے اور ہمارے لیے دائمی زندگی کے لا زوال انعامات ہیں؟‘‘
اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ آپؐ کو پوری انسانیت اور بالخصوص آپؐ کی امت کے سامنے بطورِ مثال پیش کرنا تھا ورنہ دولت کی ریل پیل جو اللہ کے باغیوں کو نصیب ہوتی ہے وہ اللہ کے پیارے رسولؐ کو کیوں نہ ملتی۔ آپؐ فقروفاقہ کی اس زندگی پر راضی اور خوش تھے۔ آپؐ نے خود ہی اس کا انتخاب بھی کیا تھا۔ آپؐ کی انھی عملی مثالوں اور تعلیمات کا اثر تھا کہ آپؐ کے جانشین خلیفۂ اول ابوبکر صدیقؓ خلیفہ ہونے کے باوجود ایک بیوہ خاتون اور اس کی یتیم بچی کے لیے اس کی بکریوں کا دودھ نکالا کرتے تھے۔ یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ دنیا کے عظیم فاتح اور ہیبت وشوکت میں بے مثال مرتبے کے مالک عمر بن خطابؓ بیت المال کے اونٹوں کا معاینہ کرنے کے بعد، گرمیوں کے دنوں میں دوپہر کے وقت مدینہ سے باہر کسی درخت کے نیچے اپنے ہاتھ کا سرہانہ بنائے محوِ استراحت ہوجایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ قیصر روم کا نمایندہ جب آپ کی خدمت میں مدینہ آیا تو آپ کے محل کو تلاش کر رہا تھا لیکن جب اسے بتایا گیا کہ خلیفہ راشد چراگاہ کی طرف جارہے تھے تو وہ اسی طرف چل دیا۔ جب وہ چراگاہ میں داخل ہوا تو درخت کے نیچے زمین پر سوئے ہوئے فاتح فارس و روم کی اس سادگی اور خاکساری سے اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ تھر تھرکانپنے لگا۔
یہ اسی تربیت اور مدرسۂ نبوی کا فیضان تھا کہ سیدنا عثمان بن عفانؓ جن کی دولت، سخاوت اور فیاضی ضرب المثل تھی، خلیفہ بننے کے بعد ایسی سادہ زندگی گزارنے لگے تھے کہ کپڑوں کے صرف دو جوڑے زیر استعمال رہتے تھے۔ ایک دھلنے کے لیے اتارتے تو دوسرا پہنتے۔ سواری کے لیے صرف دو اونٹ رکھے ہوئے تھے جو مدینہ سے مکہ کے سفر اور واپسی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ باقی ساری دولت راہِ خدا میں صَرف کردی تھی۔ ایک وسیع و عریض سلطنت کے حکمران اس خلیفۂ راشد نے اپنی شہادت سے پہلے اپنے مکان کی چھت سے شرپسند لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کا یہ پہلو ان کے سامنے نمایاں کیا تو کوئی ایک مخالف بھی اس کی نفی نہ کر سکا تھا۔ سیدنا عثمان بن عفانؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غنی کا خطاب دیا تھا اور آپؓ واقعی سلطنتِ غنا کے تاجدار تھے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سادگی و فقر کی راہوں پر چلنا عالی ہمت لوگوں ہی کی شان ہوتی ہے۔ سیرتِ مصطفٰےؐ کی کرنوں کی جھلک آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کی زندگیوں میں نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی حبِّ رسول کا تقاضا اور وفاداری کا ثبوت ہے۔
باقی صفحہ9پر
حافظ محمد ادریس
سیدنا علی بن ابی طالبؓ حکمران تھے مگر پیوند لگے کپڑے زیب تن ہوتے اور نانِ جویں آپؓ کی خوراک ہوتی ۔راستے میں کوئی حاجت مند روک کر اپنا دکھڑا سنانے لگتا تو دیر تک اس کی بات پوری توجہ سے سنتے اور داد رسی فرماتے۔ کوئی بڑھیا اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہوتی تو اس کا بوجھ خود اٹھالیتے۔ اس کے باوجود اللہ نے ایسا رعب بخشا تھا کہ کوئی بڑے سے بڑا سورما بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرسکتا تھا۔ انسان کی عزت اور مقام و مرتبہ زرق برق لباس اور ہٹو بچو کے جھوٹے نعروں کا نہیں، کردار کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَللّٰہُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْن۔ اے اللہ مجھے فقر کی زندگی دے اور اسی حالت میں مجھے دنیا سے بلا لے اور روزِ حشر مجھے مساکین کے ساتھ اٹھا‘‘ (حاکم عن ابی سعید، صحیح)۔
جناب عمر بن عبد العزیزؒ نے خلافت راشدہ کے ملوکیت میں بدل جانے کے بعد ملوکیت کو پھر خلافتِ راشدہ میں تبدیل کردیا۔ آپ تابعی بھی ہیں اور بہت بڑے مجدّد بھی۔ آپ نے بنو امیہ کے شاہی خاندان میں آنکھ کھولی۔ آپ کا دادا مروان حکمران تھا۔ آپ کا تایا اور سسر عبد الملک بن مروان بھی وقت کا بادشاہ تھا۔ آپ کے چار سالے بھی حکمران ہوئے۔ ولید بن عبد الملک و سلیمان بن عبد الملک (آپ سے پہلے) اور یزید بن عبد الملک و ہشام بن عبدالملک (آپ کے بعد) حکمرانی کی مسند پر براجمان ہوئے۔ سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد جب بارِ حکومت آپ کے کندھوں پر آن پڑا تو آپ نے سب سے پہلے اپنی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ تمام ناجائز مراعات بیت المال میں واپس جمع کرادیں۔ خلافتِ راشدہ کے اس نظام کو زندہ کرنا آسان کام نہیں تھا لیکن آپ نے پورے شاہی خاندان سے تمام ناجائز جایدادیں اور مراعات واپس لے کر بیت المال کے حوالے کردیں۔