مظہر اقبال
پاکستان کے عام لوگ صبح صبح ’’امیر بھکاریوں‘‘ کو بھیک دینا شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے لفظ امیر بھکاری پر کچھ لوگوں کے ابرو تن جائیں گی۔ جی ہاں! امیر بھکاری۔ ان میں سے کچھ سر کاری افسران ہیں تو کچھ پارلیمنٹ کے ارکان۔ میں ہر روز بھیک دیتا ہوں ہر آلا بلا کے ٹیکسوں کی مد میں۔ میں روز بھیک دیتا ہوں اس بڑے گریڈ اور بڑے پیٹ والے افسر کو جو ماحولیاتی آلودگی کے محکمے میں افسر بن کر آیا مگر اپنے شعبے میں رتی بھر بھی کام نہ کیا۔ پاکستان کے امیر لوگ اس افسر کو ماہانہ تین سے چار لاکھ روپے بھیک دیتے ہیں۔ اس شخص کی وجہ سے پاکستانی لفظ اسموگ سے واقف ہوگئے ہیں۔ برطانیہ میں اسموگ آیا تو انہوں نے CLEAN AIR ACT بنا لیا۔ آج وہاں کی فضا صاف اور ماحول دوست ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لاکھوں روپے بھیک لینے کے باوجود اس شعبے کے افسروں نے اپنا کام کیوں نہ کیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ آنے والے برسوں میں اس اسموگ میں اضافہ ہوگا اور اس میں اموات بھی ہوتی ہیں۔
میں روز بھیک دیتا ہوں اس بڑی عمر اور بڑے پیٹ والے ریسرچ اسکالر کو جس نے سوائے حالات کا رونا رونے کہ کچھ نہیں کیا۔ ہر سال کسان اپنی آنکھوں سے فصلوں کو بر باد ہوتا دیکھتا ہے۔ مگر زرعی سائنس دان کی گاڑی کا ماڈل اور نیا ہو جاتا ہے۔
پچھلے دنوں ٹماٹر جو پاکستان میں سبزی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے نرخ آسمان پر پہنچ گئے کہاں گئی ان کی ایگری مینجمنٹ سب پاکستانیوں کو اپنی آنکھیں کھولنا ہوں گی کہ ہم کن لوگوں پر اپنے وسائل خرچ کر رہے ہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ خدا نخواستہ اگر پاکستان پر برا وقت آیا تو یہ بڑی تنخواہوں والے سامان پیک کر کے امریکا یا کینیڈا پنے بچوں کے پاس چلے جائیں گے۔
میں روز بھیک دیتا ہوں اس بڑے بیوروکریٹ کو جو آدھا ایکڑ کے بنگلے میں رہائش پزیر ہے۔ CSS اور یورپ وامریکا سے ریفرشر کورسز کرنے والے، یہ سنگ مرمر کے محل بنانے والے، بڑی اور چمکتی گاڑیوں کی ہوس رکھنے والے میرے اور آپ کے ٹیکس پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔
میں حیران ہوں اس قوم کی سادگی پر کہ ان کے اندر احساس نامی کیفیت کہاں گئی انہوں نے ان بیوروکریٹوں کو کیوں معاف کر دیا۔ جنہوں نے قسم کھائی تھی کہ پاکستان کی خد مت کریں گے۔ حلف لیا پاکستان کے لیے مگر پوجا کرتے ہیں نفس کی میری معزز عدالتوں سے درخواست ہے کہ سوموٹو ایکشن لیں۔ اب دیر کی گنجائش نہیں۔ کہیں بیوروکریٹس کے بھیس میں کلبھوشن تو نہیں بیٹھے ہوئے۔
مجھے دوبارہ بھیک دینی پڑتی ہے ایک سیکرٹری ایجوکیشن چاہے وفاقی ہو یا صوبائی اور دوسری مرتبہ ہر اس سگنل پر کھڑے چھوٹے بچوں کو جو متاثرین، سیکرٹری ایجوکیشن ہیں۔ ان کے اپنے بچے بڑے نجی اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں جو پیسہ ان بوسیدہ لباس بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ ہونے تھے وہ پراپرٹی اور نئے بنگلے بنانے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہی بچے بھوک، افلاس، ناامیدی اور احساس کمتری کے کلاس روم میں بڑے ہوتے ہیں اور نامعلوم افراد بن جاتے ہیں۔ خدارا کوئی دردِ دل رکھنے والا سامنے آئے اور اعلان کر ے کہ تمام بیوروکریٹوں کے بچے انہی سرکاری اسکولوں میں پڑھیں گے۔ آپ کی اور میری آنکھیں دیکھ لیں گی وہ منظر تبدیل ہوتا ہوا، اخباروں میں اشتہار دیے جا رہے ہوں گے کہ سر کاری اسکول کے لیے بہترین استاد درکار ہیں۔
میں بھیک دیتا ہوں پارلیمنٹ میں بیٹھے ذہنی معذوروں کو جو مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کے نئے ماڈل تو زیرِ بحث لاتے ہیں، مگر انہیں عوام کی بہتری سے کوئی سروکار نہیں۔ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ یورپ میں بہت سے ارکان پارلیمنٹ عام بسوں میں سوار ہوتے ہیں۔ لیکن ہم پاکستانیوں نے اپنی بھیک بڑھا دی اور ہمارے ارباب بست و کشاد کے لیے گاڑیوں کی فوج ظفر موج موجود ہے۔ بھیک دینے والوں نے یہ کبھی نہیں پوچھا کہ جناب ہمیں کس مد میں بس کی چھت پر لٹکا دیا گیا ہے۔ کیا مہذب ملکوں میں لوگ ایسے سفر کرتے ہیں۔
بھیک دینے والوں نے یہ کبھی نہیں پوچھا کہ آخر ہمارا تعلیمی ڈھانچہ کب صحیح ہوگا۔ جس برطانیہ کے یہ گن گاتے ہیں۔ وہاں ہر طالب علم کو اسکول میں کھانا دیا جاتا ہے اور مینیو خود برطانوی وزیر اعظم بناتا ہے۔ تعلیم سے یاد آیا EDEXEL تعلیمی نظام برطانیہ کا بہترین ایجوکیشن سسٹم ہے۔ اس کی گلوبل منیجر نے ہمیں بتایا کہ پاکستانی حکام تین مرتبہ مجھے بلا چکے ہیں، بڑے ہوٹل میں رہائش دی، کانفرنس ہوئی اور پھر بات ختم ہوگئی۔ میں تو پہلے ہی کہ چکا ہوں ان وڈیروں اور چودھریوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔
ہم پاکستانی بھیک دیتے ہیں پی آئی اے کے تمام چوٹی کے افسران کو جنہوں نے حال ہی میں امریکا کے لیے پی آئی اے کی پروازیں بند کر دیں۔ رب کعبہ کی عزت کی قسم یہاں ضرورت ہے ایک ہنٹر کی جو ان سے پوچھتا کہ تم کس کھاتے میں غریب لوگوں سے ماہانہ دس دس لاکھ تنخواہیں اٹھا رہے ہو۔ شرم سے ان لوگوں کو ڈوب مرنا چاہیے۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔ یہی کرپٹ افسران جب ریٹائر ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو اسکالر کے طور پر ٹی وی پر پیش کرتے ہیں اور ہر افسر قدرت اللہ شہاب بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بیوروکریسی کی اور ہالنگ ہو۔