شاہراہِ حماقت کا مسافر

269

عارف بہار
اس خبر نے عالمی سطح پر ایک نئی ہلچل اور بے چینی پیدا کردی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بیت المقدس کے متنازع اسٹیٹس کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے اسرائیل کا مستقل دارالحکومت تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔ بیت المقدس بین الاقوامی طور پر متنازع شہر ہے اور اقوام متحدہ نے اس کے متنازع علاقہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر رکھی ہے۔ یہی وجہ کہ اسرائیل کے قیام ہی سے اس کا دارالحکومت تل ابیب ہے۔ ماضی میں اسرائیل نے اپنا دارالحکومت تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی کوششیں کیں مگر بین الاقومی دباؤ اور عربوں کے احتجاج کے باعث اس منصوبے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ بیت المقدس یعنی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے جارہے ہیں تو اس کے پیچھے امریکا کی صہیونی لابی کا دباؤ بتایا جارہا ہے۔ صہیونیت اب امریکی صدر کے گھر میں اپنے قدم جمائے ہوئے کیوں کہ ان کے داماد سخت گیر یہودی مانے جاتے ہیں۔ امریکا سے آنے والی ان تشویشناک خبروں نے عرب لیگ کے تن مردہ میں بھی جان سی ڈال دی اور لیگ نے امریکا کو اس اقدام پر سنگین نتائج کا انتباہ کیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ترجمان محمود حباش نے تو اسے امن عمل کی مکمل تباہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیت المقدس کے اسٹیٹس میں تبدیلی کی قیمت عالمی برادری کو چکانا پڑے گی۔ اس وقت مسلمان دنیا میں جو انتہا پسندانہ رجحانات ہیں ان کی بنیاد بیت المقدس ہی میں تلاش کی جا سکتی ہے۔
فلسطینیوں نے ایک مدت تک خود کو سخت گیر سوچ سے الگ رکھ کر یاسر عرفات اور ان کی الفتح کے بینر کے ساتھ وابستہ رکھا۔ یہ خالص سیکولر تحریک تھی جس میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی تھے۔ یاسر عرفات اور ان کے ساتھی بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک کے ہم قدم اور ہم رکاب تھے اور ان کا خیال تھا کہ ایک سیکولر اور غیر مذہبی تحریک چلا کر وہ عالمی سطح پر غالب غیر مسلم طاقتوں کی زیادہ بہتر انداز سے حمایت حاصل کرپائیں گے۔ امریکا اور اس کے ہمنواؤں نے سیکولر چھاپ کے باجود فلسطینیوں کی تحریک کو قبول کرنے کے بجائے ایک سخت گیر یہودی ریاست اسرائیل کے موقف کی حمایت جا ری رکھی۔ ان رویوں نے فلسطینیوں کو اپنی روایتی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کر دیا۔ یاسر عرفات اپنی پالیسی کے باعث کچھ حاصل نہ کرپائے، حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ میں ان کے دوست عرب حکمران ایک ایک کرکے ان کی حمایت سے دستکش ہوتے چلے گئے۔ اس صورت حال نے فلسطینی عوام کو ایک نئے انداز کی جدوجہد پر آمادہ کیا۔ 80ء کی دہائی کے وسط میں فلسطینی نوجوان ایک ویل چیئر پر بیٹھے ایک بزرگ شیخ احمد یاسین کے گرد جمع ہونا شروع ہوئے اور انہوں نے خالص اسلامی نعروں اور جہادی سوچ کو اپناتے ہوئے پتھر کے ذریعے جدوجہد شروع کر دی۔ اس تحریک کو حماس کا نام دیا گیا اور یوں فلسطین کی قیادت اور سیادت پر یاسر عرفات کی تنہا دعوے داری ہی چیلنج نہیں ہوئی بلکہ ایک طرز کی مزاحمت چل پڑی۔ پتھر کے اس جہاد کا جواب طاقت سے دینے کی راہ اپنائی گئی اور یوں مشرق وسطیٰ میں تنازعے کی حرکیات میں تبدیلی آتی چلی گئی۔ 90ء کی دہائی کے اوائل میں جب فلسطینی تحریک کے غیر متنازع سمجھے جانے والے قائد یاسر عرفات اپنے علاقائی اور عالمی دوستوں سے محروم ہو گئے۔ ارد گرد کا ماحول فلسطینی مزاحمت کے لیے قطعی غیر موافق ہو گیا تو یاسر عرفات اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق سرابن کے ساتھ اوسلو معاہدے پر مجبور ہوئے۔ یہ ایک دور کے مقبول مزاحمت پسند لیڈر کی حالات کے آگے خود سپردگی تھی۔ اس سے مشرق وسطیٰ کا مسئلہ حل نہ ہوسکا کیوں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی حیثیت اور مقام اور دو ریاستوں کے تصور کو تسلیم کرنے کے بجائے توسیع پسندی کا عمل جا ری رکھا۔ عراق کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ، ایران عراق جنگ، کویت پر عراق کا حملہ، عراق پر امریکا کا حملہ، القاعدہ کا ظہور اور اس کے بعد کی خونیں کہانی کی ڈور کا ہر سرا فلسطین میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ اب امریکا مشرق وسطیٰ میں جو حماقت کرنے جا رہا ہے یہ ایک بالخصوص عرب دنیا اور بالعموم مسلم دنیا میں غصے، ردعمل اور نفرت کے نئے جذبات کی فیکٹری ثابت ہوگا جس سے عالمی امن کے لیے نئے چیلنج شروع ہو ں گے۔
فلسطین پر ٹرمپ کارڈ کھیلنے کے بعد امریکا جنوبی ایشیا میں کشمیر پر بھی کوئی حماقت کر سکتا ہے۔ اس حماقت کی ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ کشمیر کے متنازع اسٹیٹس کے موقف سے انحراف کرکے بھارت کی عمل داری کو مستقل طور پر تسلیم کر لے گا۔ فلسطین اور کشمیر کے مسائل میں جہاں بڑی حد تک مطابقت ہے وہیں ان علاقوں کی قابض قوتوں کا ایک مشترکہ چھتری تلے اتحاد سا بن چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک یہ دونوں مسائل امریکا کے دو اسٹرٹیجک شراکت داروں کے لیے مشکلات کا باعث بنے ہیں۔ اس لیے امریکا ان دونوں معاملات کو نمٹانے کے لیے ایک ہی طرح کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے جس کا مرکزی نکتہ ہی اسرائیل اور بھارت کی اَنا کو ٹھیس پہنچائے بغیر ان کی مشکل کو آسان کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین پر معاہدہ اوسلو کرانے کے بعد امریکا نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعے کشمیر پر ایک اوسلو طرز معاہدے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا بیت المقدس کی متنازع حیثیت کو نقصان پہنچا کرمشرق وسطیٰ ہی میں نہیں درحقیقت دنیا بھر میں ایک ہمہ گیر فساد کی بنیاد پر رکھنے جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ دنیا میں امن کی جلتی بجھتی کئی شمعوں کوکلی طور بجھانے کا باعث بنے گا ۔