پاکستان میں وزرا اوردعوے لازم و ملزوم ہوچکے ہیں چنانچہ وزیر توانائی اویس لغاری نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک بھر سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی گئی ہے اور لائن سے نقصان والے علاقوں میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ دو گھنٹے کر دی گئی ہے۔ وزیر توانائی کوئی بھی ہو‘ وہ تمام اعلانات اور احکامات نچلے عملے کی جانب سے آنے والی رپورٹوں کی بنیاد پر جاری کرتا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی وزراء توانائی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کر چکے ہیں۔ ساتھ ہی چور دروازے بھی کھول گئے ہیں۔ اب بھی یہی ہوا ہے کہ لائن لاسز والے علاقوں میں دو گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا تو اعتراف کر لیا گیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ اگر وزیر موصوف کے بیان کا جائزہ لیا جائے تو بات بہت واضح ہے کہ یہ بھی ایک انتخابی بیان ہے۔ پورے ملک میں سردیاں شروع ہو چکی ہیں‘ بجلی کی کھپت یا استعمال میں واضح کمی آگئی ہے جس کے نتیجے میں جو قلت تھی اس میں بھی واضح کمی آئی ہے۔ یہ سردی دو تین ماہ تک چلے گی اس کے بعد انتخابات کا اعلان ہو جائے گا پھر زور دار تقریریں ہوں گی کہ ہم نے تو لوڈ شیڈنگ ختم کر دی تھی اب پھر موقع دیا جائے تو لوڈ شیڈنگ پھر ختم کر دیں گے اور عوام سادہ لوح ہیں پھر انہی لوگوں کو سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔ وزیر توانائی نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’بجلی ضرورت سے زیادہ ہے‘‘ انہوں نے یہ تو بتایا کہ کتنے فیڈرز زیرو لوڈ شیڈنگ پر آجائیں گے لیکن یہ نہیں بتایا کہ پیداوار میں کتنااضافہ کیا گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بجلی کے استعمال میں کمی ہوگئی ہے اور یہ سردیوں میں کم ہی رہے گی۔ بات تو تب ہوتی کہ بجلی کی پیداوار میں اتنا اضافہ کیا جاتا جتنی ضرورت ہے اور اگر بجلی ضرورت سے زیادہ ہے تو ذرا فاضل بجلی پڑوس کے ممالک کو فروخت تو کردیں۔ کراچی میں کے الیکٹرک نے ناک میں دَم کر رکھا ہے‘ کراچی ہی کو فاضل بجلی دے دیں۔۔۔ یہ دعوے اپریل کے بعد دھرے رہ جائیں گے۔ پتا نہیں ’’گرمیوں میں کوئی بجلی کی وجہ سے نہیں روئے گا‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ لیکن اس میں یہ بات واضح ہے کہ لوگ روئیں گے ضرور‘ بجلی کی وجہ سے نہیں‘ کسی اور وجہ سے سہی۔