کچھ نہ کچھ حقیقت نکل ہی آتی ہے! 

532

قصہ بہت مشہور ہے۔ ممکن ہے کہ آپ نے کسی اور طریقے سے سُنا ہو۔ مگر اب ہمارے طور طریقے ہی کچھ اتنے بگڑ چکے ہیں کہ سیدھی بات بھی سیدھے طریقے سے کرنے کے بجائے ’’وکھرے‘‘ طریقے سے کرتے ہیں۔ سو، عینی شاہدوں کی اطلاع کے مطابق ایک روز معروف اور ممتاز شاعر مرزا اسداللہ خاں غالبؔ اپنے لیے کچھ ’’دوا، دارُو‘‘ لینے کو گھر سے باہر نکلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ’’رُوٹ لگا ہوا ہے‘‘۔ کسی اہم شخصیت کی سواری گزرنے کو ہے۔ آگے جانے کا آرڈر نہیں ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ عجب تماشا دیکھا کہ ’’ہٹو بچو‘‘ کا منہ زبانی ’’ہوٹر‘‘ بجاتی ایک شاہی پالکی دوڑی چلی آتی ہے۔ اُستادِ شہ شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ اپنے تن و توش سمیت اُس میں لدے پھندے اور ٹنگے چلے جارہے ہیں۔ اُن کا تن وتوش دیکھ کر چچا ؔ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ جل کر فرمایا:
’’ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اِتراتا‘‘
وہیں کہیں اُس زمانے کا کوئی ’مخبر‘ یا ’خبردار‘ یا کسی زبانی چینل کا کوئی ’کیمرہ بردار‘ کھڑا تھا۔ اُس نے یہ ’’فوٹنگ‘‘ منہ زبانی ریکارڈ کرلی۔ اور ذرا کی ذرا میں (چچاکے دل کے) جنگل کی یہ آگ کسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی طرح شہر بھر میں پھیل گئی۔ مذکورہ مصرع کسی نے اُستادِ شہ کو ہی نہیں شہ کو بھی SMS کردیا۔ وڈیو WhatsApp کر دی۔ پھر تو جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔ یعنی بات ’فیس بُک‘ پر بھی آگئی۔ ایجنسیاں حرکت میں آگئیں۔ پتا چلتے چلتے سرکار کو بھی تخلیق کار کا پتا چل ہی گیا۔ چچا کے نام ’سائبر کرائم ایکٹ‘ کے تحت سمن جاری ہوگیا۔ چچا خود بھی وظیفہ خوار تھے۔ (ایجنسیوں کی خفیہ فہرست میں نہیں، بلکہ کھلّم کھلّا)۔ طلبی کا پتا چلتے ہی اُن کی سِٹّی گُم ہوگئی۔ مگر آدمی ذہین، کائیاں اور عیّار تھے۔ اپنی گُمشدہ سِٹّی کی تلاش میں سرکھپانے کے بجائے جھٹ غزل مکمل کردی۔ وہی مشہور غزل جس کا مطلع ہے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تُم کہ تُو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
سو، جب سرکار نے دربار میں بُلاکر چچا سے وضاحت طلب کی کہ: ’’واضح کرو کہ تمہیں اُستادِ شہ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ اور کیوں نہ تمہیں لاپتا افراد کی فہرست میں شامل کر دیا جائے؟‘‘
تو چچانے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا: ’’بندہ پرور! گستاخی معاف! پہلے غزل تو پوری سُن لیجیے‘‘۔ بادشاہ کو غزل کہنے ہی کا نہیں، غزل سُننے کا بھی لپکا تھا۔ سو اجازت مل گئی۔ چچا نے لہک لہک کر غزل سُنانی شروع کردی۔ آخر میں بڑے طنطنے سے سے فرمایا: ’’حضور! مقطع عرض ہے:
ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
صاحبو! چچا بھی ہماری طرح سے ازلی اور ابدی ’’پنگے باز‘‘ تھے۔ ’’پنگے بازی‘‘ اُن کی فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی۔ چُھٹتی نہیں تھی منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ چناں چہ یکم اپریل 1852ء کو جب شہزادہ جواں بخت کا نکاح ہوا اور چچا نے شہزادے کی شادی پر سہرا لکھا تو لکھتے لکھتے یہ بھی لکھ گئے:
ہم سخن فہم ہیں، غالبؔ کے طرف دار نہیں
دیکھیں کہہ دے کوئی اِس سہرے سے بڑھ کر سہرا
مقطع سنتے ہی اُس زمانے کی ’’پیمرا‘‘ (PEMRA) کے حکام حرکت میں آگئے اور شاہِ ذی جاہ کو جا شکایت لگائی کہ:
’’اِس شعر میں بھی اُستادِ شہ کی ’کردار کُشی‘ کی گئی ہے‘‘۔
نتیجہ یہ کہ چچا کو پھر ’اِظہارِ وجوہ‘ کا نوٹس جاری ہوگیا۔ اب کے ایک طویل معذرت نامہ لکھنا پڑا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اُستاد ذوقؔ کے کہے ہوئے سہرے کے مقابلہ میں چچا کا کہا ہوا سہرا تو بس یوں ہی سا تھا۔ مگر معذرت نامہ اُنہوں نے بڑے غضب کا لکھا جو گہرے طنز اور دلچسپ مزاح کا اعلیٰ شہکار ہے۔ چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیے:
منظور ہے گزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیان حُسنِ طبیعت نہیں مجھے
آزادہ رَو ہوں اور مرا مسلک ہے صُلحِ کُل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
اُستادِ شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے
مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے
رُوئے سخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ
سودا نہیں، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے
قسمت بُری سہی، پہ طبیعت بُری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
اور کہتے کہتے یہ بھی کہہ گئے کہ استاد جی! شاعری تمہارے لیے ذریعۂ عزت ہو تو ہو، ہم تو خاندانی عسکریت پسند اور پشتینی دہشت گرد ہیں کہ:
سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
ہمیں نہیں معلوم کہ اُستاد ذوقؔ نے نشّۂ دربار اُترنے اور شاہی تشریفات و اعزازات کا خمار ٹوٹنے کے بعد اعتراف کیا یا اِس سے قبل؟ مگر بالآخر اُستاد ذوقؔ نے یہ اعتراف کرہی لیا کہ:
بجا کہے جسے عالَم اُسے بجا کہیے
زبانِ خلق کو نقّارۂ خدا کہیے
یعنی خلقِ خدا کے آگے جابجا یہ مصرع نہ پڑھتے پھریے کہ:
مجھے کیوں نکالا؟ مجھے کیوں نکالا؟
صاحبو، زبانِ خلق آج بھی نقارۂ خدا ہے اور ۔۔۔ رازِ خدائی ہے یہ ۔۔۔ کہ جو باتیں زباں زدِ خلق ہوں اُن میں کچھ نہ کچھ حقیقت نکل ہی آتی ہے۔