بابری مسجد کی مسماری کی پچیسویں برسی 

412

پچیس سال قبل 6 دسمبر کو ہندو شدت پسند جماعتوں، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور بھارتیا جنتا پارٹی کے ڈیڑھ لاکھ کار سیوکوں نے اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں 489 سال قدیم بابری مسجدکے گنبدوں پر چڑھ کر اسے مسمار کر دیا تھا۔ اس وقت دلی میں کانگریس کے وزیر اعظم نرسیما راو تھے جو مسماری کے وقت چپ سادے بیٹھے رہے۔ ہندو کار سیوکوں کی قیادت بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اور اوما بھارتی کر رہی تھیں۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بھارتیا جنتا پارٹی کے کلیان سنگھ تھے جنہوں نے بابری مسجد پر ہلہ بولنے والوں کو روکنے کے بجائے ان کی ہمت افزائی کی تھی۔ اس کا صلہ انہیں مودی سرکار نے 2014 میں راجستھان کا گورنر بنا کر دیا۔
بابری مسجد کی مسماری کے بعد جب پورے ہندوستان میں مسلمانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو ممبئی، سورت، احمد آباد، کانپور، دلی، بھوپال اور دوسرے بہت سے شہروں میں ان پر منظم حملوں کی آگ بھڑک اٹھی جس میں دو ہزار افراد ہلاک ہوگئے، اکثریت ان میں مسلمانوں کی تھی۔
سولہویں صدی میں جب مغل بادشاہ بابر کے جنرل میر باقی نے ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی تھی تو اس وقت انہوں نے سوچا تک نہ تھا کہ چار سو سال بعد اس مسجد کو یوں منہدم کر دیا جائے گا اور اس پر اتنے زیادہ مسلمانوں کا خون بہے گا۔ تین صدیوں سے زیادہ عرصہ اس مسجد پر کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا تھا۔ 1859 میں پہلی بار ہندووں نے دعویٰ کیا کہ اس جگہ جہاں بابری مسجد تعمیر کی گئی ہے، نو لاکھ سال قبل رام پیدا ہوئے تھے اور اسی مناسبت سے اس مقام کو رام جنم بھومی کہا جاتا ہے۔ اس دعویٰ کے نتیجے میں اس جگہ ہندو مسلم فساد برپا ہو گیا۔ جس کے بعد انگریزوں کی حکومت نے بابری مسجد کے سامنے کا احاطہ دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک ہندو وں کی پوجا کے لیے اور دوسرا مسلمانوں کی مسجد کے لیے۔ 1949 تک یہ صورت حال برقرار رہی لیکن اچانک ہندو مہا سبھا کے کارکنوں نے راتوں رات مسجد کے صحن میں رام کے بت نصب کر دیے جس کے بعد ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان عدالتی معرکہ آرائی شروع ہوگئی۔ اس معرکہ آرائی کی آڑ میں کانگریس کی حکومت نے بابری مسجد کے دروازے مقفل کر دیے۔ یوں مسلمان اس مسجد سے یکسر بے دخل ہوگئے۔
1986 میں بھارتیا جنتا پارٹی کے راج میں ڈسٹرکٹ جج کے فیصلہ نے آگ بھڑکا دی۔ جج نے فیصلہ دیاکہ بابری مسجد کے تالے کھولے جائیں اور ہندووں کو اندر پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔ 1990 میں بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنماوں نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی مہم شروع کی اور سومنات کے مندر سے ایودھیا کے لیے رام رتھ یاترا نکالی اس یاترا کی قیادت لال کرشن اڈوانی کر رہے تھے لیکن انہیں ایودھیا پہنچنے سے پہلے ہی بہار میں لالو پرشاد یادو نے گرفتار کر لیا۔ لیکن رام مندر کی تعمیر کی مہم کی آگ برابر بھڑکتی رہی اور آخر کار 6 دسمبر کو ہندو کار سیوکوں نے بابری مسجد پر دھاوا بول دیا اور گنبدوں پر چڑھ کر کدالوں اور ہتھوڑوں سے مسجد کو منہدم کر دیا۔
بظاہر تو لگا کہ ڈیڑھ لاکھ ہندو جو ایودھیا میں جمع ہوئے تھے انہوں نے اچانک جنون میں آکر مسجد کو مسمار کر دیا لیکن 2005 میں انٹیلی جنس بیورو کے جوانٹ ڈائریکٹر ملوئے کرشنا دھر نے یہ انکشاف کیا تھا کہ بابری مسجد کی مسماری کی دس مہینے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے منصوبہ بندی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں جس میں مسجد کی مسماری کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، ان تمام تنظیموں کے رہنما شریک ہوئے تھے۔ کرشنا دھر کا کہنا تھا کہ اس اجلاس کی ٹیپ ریکارڈنگ وزیر اعظم نرسیما راو کو پیش کی گئی تھی اور سارے منصوبے کی تفصیل سے انہیں آگاہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کی۔
16دسمبر 92 کو حکومت نے بابری مسجد کی مسماری کی تحقیقات کے لیے لبرہان کمیشن مقرر کیا جس نے سولہ سال بعد دس ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پیش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ مسجد کی مسماری ایک منظم منصوبہ کے تحت عمل میں آئی تھی۔ 2015 میں عدالت عظمیٰ میں بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنماؤں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور بھارتیا جنتا پارٹی کے متعد رہنماوں کے خلاف مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی جو ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہے۔
اس دوران ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت کی کئی کوششیں ہوئیں لیکن سب ناکام رہیں۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ مسمار شدہ مسجد کی جگہ ایک طرف رام مندر اور دوسری جانب مسجد تعمیر کی جائے۔ اب شیعہ وقف بورڈ نے عدالت عظمیٰ میں تجویز پیش کی ہے کہ مسمار شدہ مسجدکے مقام سے دور لکھنو میں مسلمانوں کے علاقے میں ایک الگ مسجد تعمیر کی جائے۔ لیکن سنی بورڈ نے جو بابری مسجد تنازعے کا ایک بڑا فریق ہے، یہ تجویز مسترد کر دی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ عدالت عظمیٰ ان دو مسلکوں کے درمیان مفاہمت کراکے یہ ثابت کرے گی کہ اس نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بابری مسجد کے وسیع علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک رام للا کی تنظیم کو مندر کی تعمیر کے لیے دے دیا جائے دوسرا حصہ ہندووں کے نرموہی اکھاڑے کو تفویض کر دیا جائے اور تیسرا حصہ سنی بورڈ کی تحویل میں دے دیا جائے۔
بہرحال ہندوستان کی آزادی کے بعد بابری مسجد کی مسماری، مسلمانوں پر سب سے بڑا حملہ تھا جس میں براہ راست بھارتیا جنتا پارٹی اور بلواسطہ طور پر سیکولرزم کی علم بردار کانگریس پارٹی بھی ملوث تھی۔ مسماری کے خلاف مسلمانوں کے شدید احتجاج کے جواب میں پورے ملک میں مسلم کُش فسادات کی آگ میں دو ہزار مسلمانوں کی جانیں جھلس گئیں اور اس کے بعد اسی بابری مسجد کی مسماری کے تنازعے کے نتیجے میں گجرات میں ہولناک فسادات ہوئے جن میں تین ہزار مسلمان ہلاک ہوئے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بابری مسجد کی مسماری اور اس کے ملبہ پر ہندوتوا کے پرچم لہراتے ہوئے بھارتیا جنتا پارٹی نے ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور ملک کو ہندو قوم پرستی کے نام پر تقسیم کر کے اس پر فاشزم مسلط کر دیاہے جو عجیب و غریب مظاہر میں سامنے آرہا ہے۔ تاج محل کو قدیم ہندو مندر قرار دیا جارہا ہے۔ قطب مینار کو پرانے ہندو دور کی رصد گاہ ثابت کیا جارہا ہے۔ اور اب فلم پدما وتی پر راجپوت فلم کے اداکاروں کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں کہ اس میں راجپوت شہزادی اور علا الدین خلجی کا رومانس دکھایا گیا ہے۔ جب کہ تاریخ دان کہہ رہے ہیں کہ یہ محض خیالی داستان ہے جو کئی سو سال پہلے شاعر جایسی نے نظم کی تھی۔ گائے کی رکھشا کا ایسا جنون طاری ہوگیا ہے کہ کسی مسلمان کو گائے کے ساتھ چلتا دیکھ لیتے ہیں تو اس کی جان لے لیتے ہیں یہ الزام لگا کر کہ یہ گائے ذبح کرنے لے جارہا ہے۔ اور تو اور دریائے سندھ کی تہذیب کو خیالی دریا سرسوتی کے ذریعے راجستھان سے جوڑا جا رہا ہے۔ اور اتر پردیش کے یوگی وزیر اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ وہ اگلے دو سال کے اندر اندر ریاست میں رام راجیا قائم کر دیں گے۔ اس وقت ہندو قوم پرستی کے جنون نے مسلمانوں کو سیاست کے میدان سے باہر دھکیل دیا ہے، اس کی مثال گجرات میں انتخابی مہم ہے جہاں مسلمان بے نشان ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے مسائل کا کوئی ذکر نہیں صرف گنے چنے مسلم امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔ یہی صورت حال اتر پردیش کے پچھلے انتخابات میں تھی جہاں مسلمانوں کا قطعی کوئی وجود نہ تھا اور نتیجہ یہ کہ اتر پردیش ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر کے برابر ہے۔ اتر پردیش میں مسلمان سترہ فی صد ہیں تقریباً تین کروڑ پچاسی لاکھ۔ جب کہ ریاستی اسمبلی میں صرف 24مسلم رکن ہیں۔