علی عبداللہ صالح کا قتل

430

یمن کے حوثی باغیوں نے سابق صدر علی عبداللہ صالح کو قتل کردیا۔علی عبداللہ صالح نے جس انداز سے یمن پر حکومت کی اور حوثی باغیوں کے ساتھ اپنے دور حکمرانی میں ان کا جو رویہ تھا اس کی روشنی میں ایسا ہونا یقینی تھا۔ اگرچہ آج کل وہ حوثیوں کیساتھ مل کر سعودی حمایت یافتہ وزیر اعظم عبدالرب منصور ہادی کے خلاف برسر پیکار تھے۔ جب سے عرب بہار کے عنوان سے احتجاجوں اور مظاہروں نے انہیں اقتدار سے باہر کیا تھا اس وقت سے وہ حوثی باغیوں کے دوست بن گئے تھے اور ان کے ساتھ مل کر منصور ہادی کے حامیوں سے لڑ رہے تھے ۔ اگر معاملہ صرف یہیں تک رہتا تو چند ماہ میں سعودی عرب اور یمنی عوام مل کر حالات پر قابو پالیتے لیکن ایسے حالات سے خطے کے دوسرے ممالک کیوں کر بے خبر رہتے اور کیوں کر ان سے دور رہتے چنانچہ ایران نے اس حوالے سے اپنے مفادات کی خاطر اس جنگ میں حوثیوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔ سعودی اتحاد کی جانب سے کسی قسم کے سمجھوتے سے انکار اور باقاعدہ جنگ کی وجہ سے علی عبداللہ صالح پریشان تھے اور اس دوران میں انہوں نے ایران نواز اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر کے سعودی عرب کو تعاون کا پیغام بھیجا تھا۔ لیکن ایسے کاموں میں ہر چیز مرضی کے مطابق نہیں ہوتی خصوصاً جب ایک سے زیادہ ممالک کا مفاد کسی معاملے میں شامل ہو جائے چنانچہ جب وہ اپنے گھر سے نکل کر دارالحکومت چھوڑ رہے تھے تو ان پر حملہ کردیا گیا اور متعدد قریبی ساتھیوں کو بھی قتل کردیا گیا۔ ان کے گھر پر بھی حملہ کر کے تباہ کیا گیا۔ اب اگر ان کے گروپ نے ایران نواز گروپ کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا تو گویا خانہ جنگی مزید پھیلے گی۔ علی عبداللہ صالح کا یمن کے حکمران بنے اس کے بعد سے کئی مواقع پر سعودی عرب اور عراق کے اتحادی بنے۔ دونوں یمن بھی اس دوران ایک ہوئے اور یقینی طور پر اس اتحاد کے نتیجے میں حوثیوں سے ان کے تعلقات بہت خراب ہوئے ہوں گے لیکن اس کا نتیجہ اب ان کو بھگتنا پڑا۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ علی عبداللہ صالح نے حوثیوں کو منصور ہادی کے خلاف استعمال کیا لیکن خطے کے سیاسی پہلوانوں کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ علی عبداللہ صالح ہی نے نہیں بلکہ حوثیوں کو استعمال کرنے والوں نے علی عبداللہ صالح کو بھی استعمال کیا اور اب ان کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی کیوں کہ وہ دوبارہ سعودی عرب سے تعاون کے خواست گار تھے۔ یہ درست ہے کہ یمن کے حکمران منصور ہادی اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے لیکن جب جنگ ہوتی ہے تو سب کچھ ٹھیک رہتا بھی نیہں۔ یمن میں اب خانہ جنگی زیادہ نچلے درجے تک شروع ہو جائے گی لیکن فی الحال باغیوں کے ساتھ یا ان کی قیادت کے لیے کوئی بڑا نام نہیں ہے لہٰذا اگر علی عبداللہ صالح کی تعاون کی پیش کش کو بنیادبنایا جائے تو حوثی اور ایرانی پسپائی پر مجبور ہوں گے۔ یمن وہ ملک ہے جہاں علی عبداللہ صالح کے جبر کے دور میں بھی حوثی اور سنی مسلمان ایک ہی مسجد میں نمازیں ادا کرتے تھے۔ اور کبھی اختلافی امور پر مباحثے بھی ہوتے تھے۔ لیکن اقتدار ایسی چیز ہے جو کسی بھی حکمران سے کوئی بھی غلطی کروا دیتا ہے۔ علی عبداللہ عرب بہار کے عنوان سے اقتدار سے الگ کیے گئے تھے۔ اب انہیں واپسی کا جو راستہ نظر آیا، یا انہیں دکھایا گیا وہ حوثیوں سے تعاون تھا جس میں بعد میں ایران بھی کود پڑا یہ راہ آسان نہیں تھی پھر بھی دو سالہ خانہ جنگی کے بعد انہیں اچھی طرح پتا چل گیا تھا کہ وہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں لیکن غلط راستوں کے انتخاب کے بعد معاملات آسانی سے درست نہیں ہوتے لہٰذا علی عبداللہ کام آگئے ۔ علی عبداللہ صالح کے قتل میں مشرق وسطیٰ اور کئی مسلم ممالک کے لیے سبق ہے۔ اگر اقتدار کی خاطر غلط کام کیے گئے اور غلط راستے اختیار کیے گئے تو ان کا انجام بھی غلط ہی ہوا۔ اس بات پر بحث کی جاسکتی ہے کہ عراق کے صدام حسین کو غلط سزا دی گئی ، ان کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار نہیں تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کو اپنے مفادات میں مدد کے لیے پکارنے اور ان سے تعاون لینے کے نتیجے میں ان طاقتوں کی ماننی پڑتی ہے پھر ان کا عمل دخل اپنے ملک میں ماننا پڑتا ہے اس کے بعد باقی کام وہ قوتیں خود کرتی ہیں ۔ نئی صورت حال میں عرب ممالک کو تحمل سے حکمت کے ذریعے معاملات سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جتنی طاقت استعمال کی جائے گی، مسئلہ اتنا ہی الجھتا چلا جائے گا۔