مصنوعی ذہانت میں چین کی ترقی سے امریکا پریشان

379

بی بی سی
ایک امریکی تھنک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے چین مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے میدان میں ترقی کر رہا ہے، دنیا کا اقتصادی اور عسکری توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں مثالیں دی گئی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کیسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ جولائی میں چین نے مصنوعی ذہانت کے قومی منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین اس میدان میں امریکا سے پیچھے نہیں رہے گا۔ تاہم ایک ماہر کا کہنا ہے کہ یہ تنبیہ صرف بلند بانگ دعوے ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ شائع کرنے والے ادارے سینٹر آف نیو امیریکن سیکورٹی کا کہنا ہے کہ چین اب امریکا کے مقابلے میں تکنیکی پستی کا شکار نہیں ہے اور وہ صرف برابری ہی نہیں کر سکتا، بلکہ امریکا سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینی فوج مصنوعی ذہانت سے متعلق منصوبوں میں شد و مد سے سرمایہ کاری کر رہی ہے اور ان کے تحقیقی ادارے چینی دفاعی صنعت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ چینی فوج کو توقع ہے کہ مصنوعی بنیادی طور پر جنگی سیاق و سباق مکمل طور پر تبدیل کر دے گی۔
رپورٹ کی مصنف ایلسا کانیا کا کہنا ہے کہ بعض ماہرین میدانِ جنگ میں ایسے ماحول کے منتظر ہیں، جب انسان لڑائی کے دوران روبوٹوں کے برق رفتاری سے فیصلے کرنے کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی پالیسی ہے کہ جنگ میں انسانوں کے بجائے روبوٹ استعمال کیے جائیں، تاہم دوسری جانب اقوامِ متحدہ خودمختار ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی پر غور کر رہی ہے۔
ایلسا کانیا نے لکھا ہے کہ ‘چینی فوج مصنوعی ذہانت کو منفرد اور غیرمتوقع طریقوں سے استعمال کر سکتی ہے، جن پر امریکا کی مانند قانونی اور اخلاقی قدغنیں عائد نہیں ہوتیں۔
پروفیسر نوئل شارکی ’قاتل روبوٹوں پر پابندی کی مہم‘ نامی تنظیم کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ چینی حکام نے انہیں بتایا ہے کہ ان کا اس قسم کے روبوٹ تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغرب جو کر رہا ہے اس کے بارے میں چینیوں کو زیادہ تشویش ہے اس لیے یہ خالی دھمکی ہو سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ چین اس میدان میں 5 برس کے اندر مغرب کے ہم پلہ ہو جائے گا۔ ‘بائیدو، علی بابا اور ٹین سینٹ جیسی کمپنیوں کے مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں بہت سے چینی طلبہ دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ بائیدو کے پاس مصنوعی ذہانت کے 60 مختلف پلیٹ فارم ہیں اور اس نے مغربی مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔
گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ کے چیئرمین ایرک شمٹ نے بھی چین کی جانب سے لاحق مصنوعی ذہانت کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں کہا کہ ‘میں سمجھتا ہوں کہ ہماری برتری اگلے 5 برس تک قائم رہے گی، پھر چین ہمیں آ لے گا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پینٹاگون کی ایک دستاویز میں خبردار کیا گیا ہے کہ چینی کمپنیاں ایسی امریکی کمپنیوں کے حصص خرید رہی ہیں جن کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جسے ممکنہ طور پر فوجی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔