پیپلز پارٹی کا اپنی قوت کا مظاہرہ

312

گزشتہ منگل کو پاکستان پیپلز پارٹی نے 50 ویں سالگرہ پر شہر اقتدار اسلام آباد میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا جس میں پارٹی کے شریک صدر نشین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول زرداری کے علاوہ دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ تاہم اس اہم موقع پر پارٹی رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں کوئی نئی بات نہیں کی۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ آصف زرداری ہوں یا عمران خان اور نواز شریف، ان لوگوں کے پاس کہنے کو اب کچھ رہا نہیں اور اپنے آپ کو دوہرا ہی نہیں رہے بلکہ بار بار ایک ہی بات کرتے ہیں۔ نواز شریف تو اسلام آباد سے لندن تک اپنی مظلومیت اور عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں پر الزامات سے ہٹ کر اور کچھ نہیں کہتے۔ اسی طرح عمران خان کو سوئی بھی نواز شریف اور زرداری پر اٹکی ہوئی ہے اور آئندہ اقتدار حاصل کرنے کے امید میں ان پر الزامات عاید کرتے رہتے ہیں۔ الزامات صحیح ہیں یا غلط اس سے قطع نظر اپنے آئندہ کے منصوبوں پر بھی روشنی ڈال دیا کریں مثلاً ان کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی، قوم کو بیرونی قرضوں سے کیسے نجات دلائیں گے، کشمیر کے مسئلہ پر ان کے اقدامات کیا ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ اب پیپلز پارٹی نے 50 سال مکمل ہونے پر جلسہ کیا جو درحقیقت 51واں یوم تاسیس ہے، اس میں آصف زرداری نے بھی خود کو دوہرایا کہ اب نواز شریف کی جمہوریت کو نہیں بچائیں گے اور عمران خان کے حوالے سے کہا کہ جعلی خان کو ہماری بات سمجھ میں نہیں آتی۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کشمیر کے لیے لڑنا پڑا تو لڑیں گے۔ لیکن ان کی اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کی اسلام آباد آمد پر کشمیر سے متعلق تمام بورڈز تک ہٹوا دیے تھے کہ کہیں بھارت ناراض نہ ہو جائے۔ اب آصف زرداری کشمیر کے لیے لڑنے کی بات کررہے ہیں۔ زرداری صاحب یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اب نواز شریف کی جمہوریت کو نہیں بچائیں گے۔ اگر اس سے پہلے انہوں نے نواز شریف اور ان کی حکومت کو بچانے کی کوئی کوشش کی تھی تو یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ ایسا کیوں کیا تھا۔ زرداری صاحب کے دور اقتدار میں نون لیگ کو فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے دیے جاتے رہے یعنی مسلم لیگ ن زرداری صاحب کی حکومت کو بچا رہی تھی۔ نواز شریف کے دور میں اس کے برعکس ہوا اور پیپلز پارٹی کو ملی بھگت اور جعلی اپوزیشن کے طعنے دیے جاتے رہے۔ اس موقع پر سیاست میں نووارد بلاول زرداری بھی بولے کہ جمہوریت کے بغیر وفاق قائم نہیں رہ سکتا، حکومتی رٹ پیپلز پارٹی بحال کرے گی۔ یعنی باپ بیٹے دونوں کو اس کا یقین ہے کہ اگلی حکومت پھر پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ کیا کسی طاقتور ادارے نے ان کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ ’’اگلی واری پھر زرداری‘‘۔ کیونکہ بعض تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ حکومتوں کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ لیکن کیا پیپلز پارٹی پنجاب کو فتح کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ ابھی پنجاب کے عوام خاندان شریفاں سے تنگ نہیں آئے جس کا حالیہ ثبوت قومی اسمبلی کے حلقہ 120سے کلثوم نواز کی کامیابی سے ملا ہے۔ تاہم حلف نامے میں تبدیلی اور اس پر مذہبی جماعتوں کے بھرپور احتجاج سے مسلم لیگ ن کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس موقع پر آصٖف زرداری نے بڑی عجیب بات کہی کہ ’’خواہش ہے یہ (مسلم لیگ ن) عبوری حکومت سے پہلے چلے جائیں‘‘۔ لیکن یہ مہمل خواہش کس طرح پوری ہوگی، ذرا یہ بھی سمجھا دیتے کیونکہ ن لیگ کی حکومت جب جائے گی تب ہی عبوری حکومت قائم ہوگی۔ پارٹی چیئرمین بلاول زرداری نے بھی بے سوچے سمجھے کہہ دیا کہ سیاست اور مذہب کا گٹھ جوڑ نہیں مانتے۔ یعنی انہیں سیاست اور لامذہبیت کا گٹھ جوڑ گوارا ہے۔ علامہ اقبال نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔ لیکن بلاول کو ان باتوں کا کیا شعور۔