دھرنا اور معاشی نقصانات

404

تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان کا 6 نومبر کو شروع ہونے والا راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم پر دیا جانے والا دھرنا، جو اس جماعت کے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں مسئلہ ختم نبوت کے معاملے پر جاری تھا، 21 روز بعد حکومت کے ساتھ ایک 6 نکاتی معاہدے کے بعد ختم ہوگیا اور اس کے وفاقی وزیر زاہد حامد اپنی وزارت سے مستعفی ہوگئے جن کو دھرنے کے مظاہرین ختم نبوت کے معاملے پر موردِ الزام ٹھیرا رہے تھے جب کہ دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے سامنے لاہور میں اسی تنظیم کے صدر ڈاکٹر محمد اشرف کی قیادت میں دھرنا جاری تھا جوحکومت سے مذاکرات کے بعد ختم ہوا۔
فیض آباد پر دھرنے کے باعث راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان آنے جانے والا ٹریفک بری طرح متاثر ہوا جس کے باعث لوگ چھوٹی چھوٹی سڑکوں اور گلیوں سے گزر کر اپنا راستہ طے کرکے منزل مقصود پر پہنچتے رہے اور آدھا گھنٹے کا سفر 2 اور 3 گھنٹے میں طے ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو جس ذہنی اذیت اور کوفت کا سامنا کرنا پڑا وہ اس کے علاوہ ہے۔ اس کے بعد جب 25 نومبر کو حکومت نے عدالت کے حکم پر بزور قوت اٹھانے کی کوشش کی اور پھر دھرنے کے خلاف آپریشن نامکمل چھوڑ دیا گیا اس سے مظاہرین میں اشتعال پھیلا اور بڑی تعداد میں پولیس اور ایف سی کے جوان زخمی اور شہید ہوئے۔ جن کی بڑی تعداد ابھی تک ہسپتالوں میں ہے، دو پولیس اہلکاروں کو اغوا کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، چھ افراد نامعلوم فائرنگ سے ہلاک ہوئے، آپریشن کی خبریں پھیلنے کے بعد پورے ملک میں تشدد، ہنگامہ آرائی اور مظاہروں کا سلسلہ پھیل گیا۔ کراچی میں 10 مقامات پر دھرنا دیا گیا، اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں دھرنے دیے گئے جن سے آمدورفت مفلوج ہوگئی۔ کاروبار، دفاتر، کارخانے متاثر ہوئے۔ کراچی میں دھرنوں کے باعث بندرگاہ پر کام آدھا رہ گیا۔ کراچی ائرپورٹ سے ملک کے دوسرے شہروں کو سامان کی ترسیل معطل ہوگئی اور سہراب گوٹھ سے عائشہ منزل تک ٹرکوں اور کنٹینروں کی قطاریں لگ گئیں۔
پوری دنیا میں اس قسم کے نسلی، لسانی، سیاسی اور مذہبی مظاہرے، ہنگامے اور فسادات خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں اور معاشی ماہرین، سماجی مفکرین اور سیاسی و کاروباری افراد ان پر اپنے اپنے تجزیے، تبصرے اور خیالات پیش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ اہم حقیقت ہے ان دھرنوں اور مظاہروں سے ملک کا شدید معاشی نقصان ہوتا ہے اور اس کی وسعت اور گہرائی اتنی ہوتی ہے کہ پورے طور پر اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ فیض آباد کے دھرنے کے خاتمے کے اگلے ہی دن یہ خبر آگئی تھی کہ قومی خزانے سے اس دھرنے پر 22 کروڑ خرچ ہوئے جس میں 5 کروڑ روپے پولیس اور ایف سی کے جوانوں کے کھانے پر خرچ ہوئے۔ اس طرح مختلف مقامات سے جو فورسز فیض آباد منتقل کی گئیں اس پر 8 کروڑ خرچ ہوئے جب کہ اس دوران جن فورسز کو رہائش فراہم کی گئی اس کا خرچہ 7 کروڑ تھا۔
21 روزہ دھرنے اور مختلف شہروں میں ہنگامے، توڑ پھوڑ، سرکاری املاک کو نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کاروبار، صنعت و حرفت، تجارت، ٹرانسپورٹ اور روزگار کے لیے ایک اہم فیکٹر امن وامان اور سیاسی استحکام ہے۔ کاروباری لوگ امن وامان کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ مستقبل کو سامنے رکھ کر سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اگر مستقبل ہی غیر یقینی اور غیر مستحکم ہو تو اس کا مجموعی طور پر معاشی سرگرمیوں پر منفی اثر ہوگا۔ مختلف شہروں میں دھرنوں سے آمدورفت بہت بری طرح متاثر ہوئی، خام مال اور تیار شدہ اشیا اپنی اپنی منزل تک نہ پہنچ سکیں۔ اسی طرح برآمدی آرڈر وقت پر تیار نہ ہوسکے۔ فیض آباد کے بعد میٹرو کا اسٹیشن توڑ پھوڑ کا نشانہ بن گیا، اسی طرح دوسرے شہروں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے وہاں کئی اہم میٹنگز متاثر ہوئیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات بہت خوبصورت ہیں جہاں پوری دنیا کے لوگ سیرو تفریح کے لیے آتے ہیں جن سے پاکستان زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی جس کا منفی اثر ٹوررزم، بیرونی سرمایہ کاری، معاشی و کاروباری تعلقات اور دوسرے امور پر پڑے گا اور پاکستان اس کا برسوں نقصان اٹھائے گا۔
مزید یہ کہ چھ افراد کی ہلاکت اور سو سے زائد پولیس اور ایف سی کے جوانوں کا زخمی ہونا جو مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ چھ افراد جو اس دنیا سے چلے گئے اس کے نقصان کا تخمینہ لگانا ناممکن ہے۔ مگر وہ جن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لیے یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ اسی طرح جو لوگ شدید زخمی ہوئے اور کسی کام کے قابل نہ رہے ان کے خاندانوں کے لیے گویا قیامت کے برابر ہے۔ وہ پورے پورے خاندان برباد ہوگئے۔ آج کی دنیا میں احتجاج لوگوں کا بنیادی، جمہوری اور آئینی حق ہے لیکن لوگوں میں یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں کا کوئی بنیادی حق صلب نہ کریں۔