ڈومور بابوں کی آمدورفت

363

امریکا سے کوئی سرکاری اہلکار پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کرے تو لفافہ دیکھ کر مضمون بھانپ لینے کے انداز میں ہی یہ جان لیا جاتا ہے کہ آنے والے مہمان ’’ڈومور‘‘ کہنے آئے ہیں۔ یہ اہلکار جب پاکستان آتا ہے تو یہ شک حقیقت میں تبدیل ہوجاتا ہے کیوں کہ اس کے ہاتھ میں ’’ڈومور‘‘ کی ایک فہرست ہوتی ہے۔ ہر بار اگر کچھ تبدیلی ہوتی ہے تو وہ بھی اتنی کہ فہرست میں ایک دو نکات کے بعد فہرست کے نکات اوپر نیچے ہوجاتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک تو اس فہرست کا مستقل اور سر فہرست نکتہ ہوتا ہے۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ایک حقانی نیٹ ورک کو پاکستان سے منسوب کیا جاتا ہے جب کہ دوسرا حقانی نیٹ ورک خود امریکا کی سرپرستی میں چل رہا ہے۔ سراج الدین حقانی کا نیٹ ورک اگر افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے تو حسین حقانی نیٹ ورک واشنگٹن ڈی سی میں اپنا اڈہ بنا کر پاکستان میں مختلف علاقوں اور قومیتوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان کی ریاست کی چولیں ہلا ڈالنے والے تمام کردار اس نیٹ ورک سے وابستہ ہیں اور یہ برسر عام پاکستان توڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینکس اور سی آئی اے کی سرپرستی میںیہ نیٹ ورک پاکستان میں مسلح بغاوتوں کو فکری غذا فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ کچھ عرصے پہلے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان آئے تھے تو انہوں نے بھی ڈومور کا انداز اپنانے سے گریز ہی کیا، کم ازکم میڈیا کو جاری کیے جانے والے اعلامیہ میں ڈومور کی بات بین السطور ہی رہی۔ البتہ ان کی آمد کے موقع پر امریکا اور دائیں بائیں سے عین اسی وقت جو بیانات آئے وہ ڈومور ہی کی کہانی سنارہے تھے۔
ریکس ٹلرسن کے بعد اب امریکی وزیر دفاع جمیز میٹس پاکستان آئے تو میڈیا نے پہلے ان کا امیج بھی ’’ڈومور بابا‘‘ کا بنا دیا۔ چند برس قبل تک امریکا کی ’’ڈومور‘‘ کی گردان پاکستان کی چھیڑ بن چکی تھی اب یہی بات خود امریکا کی چھیڑ بنتی جا رہی ہے۔ یعنی امریکا اور پاکستان کے درمیان سب سے مقبول ڈائیلاگ اور جملہ ’’ڈومور‘‘ ہے۔ ڈومور اورنومور کی تکرار کے سوا دونوں میں کوئی راز ونیاز، کوئی تعلق واسطہ باقی نہیں رہا۔ اب رفتہ رفتہ امریکی اہلکار پاکستان میں برسرعام ڈومور کی صداؤں سے گریز کرتے ہوئے محاورے اور جملے تبدیل کرتے ہیں جن میں تعاون اور اشتراک کی باتیں ہوتی ہیں مگر یہ باتیں بھی اس لحاظ سے سطحی ثابت ہوتی ہیں کہ پاکستان کی فضاؤں سے نکلتے ہی امریکی مہمان ڈومور بابا بن کر مطالبات اور فرمائشیں دہراتے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع جمیز میٹس اپنے پہلے سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے تو دونوں ملکوں کے کھینچاؤ کے اسی پس منظر کی وجہ سے یہاں ان کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ ان کے ہم منصب خرم دستگیر خان بھی استقبال کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔ دفاع اور خارجہ وزارتوں کے اہلکاروں نے یہ ناگوار فریضہ انجام دیا۔ اس طرح پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ان کا واسطہ روکھے پھیکے ماحول سے پڑا جو انہیں کبیدہ خاطر کرنے کو کافی تھا۔ اس بار بھی ڈومور کی سرگوشی کے جواب میں بہت مودبانہ انداز میں وہی نومور کا اشارہ ہوا اور یوں معاملہ ختم ہو گیا۔ اس بار اسی تکرار اور گردان سے بچنے کے لیے امریکا کی طرف سے طویل المیعاد شراکت داری کی بات کی گئی۔ امریکی وزیر دفاع جو بات کھلے بندوں نہ کہہ سکے وہ دور امریکا میں بیٹھے سی آئی اے اہلکار نے یوں کہی کہ اگر پاکستان اپنے ہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم نہیں کرتا تو پھر ہم خود یہ کام کریں گے۔
امریکا سے پاکستان کے لیے اب خوشی کی کوئی خبر، محبتوں کا کوئی نامہ بر نہیں آتا سوائے’’ ڈومور بابوں‘‘ کے کہ جن کے ہاتھ میں ایک پرانی فہرست کی فوٹو کاپی ہوتی ہے جواب میں پاکستان بھی اسے نومور کی پرچی کی پھٹی پرانی فوٹو کاپی تھما دیتا ہے اور یوں ان دونوں کی تکرار میں خطے کا آشوب رستا ہی چلا جاتا ہے۔ افغانستان خانہ جنگی کے الاؤ میں جھلس رہا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑتا ہے جس کی ایک طویل سرحد شورش زدہ ملک کے ساتھ ملتی ہے۔ افغانستان میں پلنے والی دہشت گردی کے باعث پاکستان کے نوخیز بیٹے اور اُٹھتی جوانیاں خون میں لت پت ہورہی ہیں۔ کسی لکڑ ہارے کا بیٹا، کسی مزدور کا لخت جگر، کسی
گھرانے کا سایہ، کوئی گھنی چھاؤں اس سیلابِ بلا میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ المیے داستاں در داستاں چلتے اور پلتے چلے جا رہے ہیں اور دور بیٹھے لوگ آگ تاپ رہے ہیں۔ بھارت ہو یا امریکا ان کے لیے یہ معاشی نفع ونقصان کا معاملہ ہے۔ منڈیوں تک مال پہنچانے کی بات ہے۔ اسٹرٹیجک بالادستی اور گہرائی تلاش کرنے کا کھیل ہے۔ چین کو پچھاڑنے اور پاکستان کو گھیرنے کا داؤ ہے، تجارت کے حجم کا معاملہ ہے مگر افغانستان اور پاکستان کے لیے یہ صورت حال زندگی اورموت کا معاملہ ہے۔ یہ جنگ افغانستان کی زمین پر لڑ رہی جا رہی ہے اور اس آگ کے شعلے فطری طور پر پڑوسی کے گھر کو جلارہے ہیں۔ دور والوں کے لیے یہ ’’کمپویٹر گیم‘‘ سے زیادہ نہیں مگر پاکستان اور افغانستان دونوں اس کھیل میں عملی طور پر لہو لہو ہیں، دونوں دہشت کے سایوں میں رینگ رہے ہیں مگر ’’ڈومور بابوں‘‘ کو اس سے کیا غرض کہ ان کا گھر اور سر سلامت ہے۔