جو تا حیات واہیات رہے اسے بد مزاج شوہر کہتے ہیں۔ ایک مولانا صاحب جمعے کے خطبے میں جذباتی تقریر کررہے تھے ’’میری زندگی کے سب سے سہانے شب وروز جس عورت کی بانہوں میں گزرے وہ عورت میری بیوی نہیں تھی۔‘‘حاضرین میں سناٹا چھا گیا۔ مولانا کیا کہہ رہے ہیں۔ مولانا نے تجسس ختم کرتے ہوئے کہا ’’گھبرائیے نہیں وہ عورت میری ماں تھی‘‘۔ ایک صاحب کو مولانا کی یہ بات بڑی پُر لطف لگی۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ یہ بات جا کر بیگم سے کہی جائے۔ گھر پہنچے بیگم کچن میں سالن پکا رہی تھیں۔ انہوں نے بیگم کے قریب جاتے ہوئے کہا ’’کیا تم جانتی ہو میری زندگی کے سب سے سہانے شب وروز جس عورت کی بانہوں میں گزرے وہ تم نہیں تھیں۔‘‘ تھوڑی دیر بعد جب ڈاکٹر کچن آئٹم سے زخمی ان کے سر کی پٹی کررہا تھا وہ درد سے کراہتے ہوئے کہہ رہے تھے ’’کاپی پیسٹ سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘ بد مزاج شوہر ایسا ہی کرتے ہیں۔ مجال ہے بیوی سے کوئی اچھی بات کرلیں۔ چن چن کر بیوی کی ذات میں کیڑے نکا لتے اور ڈالتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کی برائیاں انہیں اپنی بیوی میں نظر آتی ہیں۔ بیوی کا موڈ کیسا ہی خوشگوار کیوں نہ ہو وہ اس کے موڈ کا ستیا ناس کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ بیوی نے آسمان پر تارے دیکھتے ہوئے کہا: ’’وہ کون سی چیز ہے جو آپ روز دیکھتے ہیں لیکن توڑ نہیں سکتے۔‘‘ شوہر نے بد مزاجی سے جواب دیا ’’تمہارا منہ‘‘۔
شکیل جمالی نے کہا تھا
ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آرہی ہے
عورت ایسی ہی روشن شاہراہ کا نام ہے لیکن نہ جانے کیوں بد مزاج شوہروں کا رویہ بیوی کے حوالے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا جو مرد بازاروں میں گرل فرینڈز کے شاپنگ بیگز اُٹھائے اُٹھائے پھرتے ہیں۔ میچنگ ڈھونڈنے کے چکر میں دکان دکان ذلیل وخوار ہو رہے ہوتے ہیں۔ گرل فرینڈ کو بازار بازار گھماتے موٹر سائیکل میں پٹرول ختم ہونے کی دھکڑ پکڑ میں لگے ہوتے ہیں اور گرل فرینڈ کو نکڑ کنارے ڈراپ کرنے کے بعد موٹر سائیکل کو سڑک پر لٹا کر اور ریزرو میں لگا کر گھر پہنچتے ہیں وہ شوہر بنتے ہی اتنے بد مزاج کیوں ہوجاتے ہیں کہ بیوی کی اشیاء ضروریہ کی خریداری بھی انہیں زہر لگنے لگتی ہے۔ بد مزاج شوہر پرانی موٹر سائیکل کی طرح ہوتا ہے چلتا کم ہے شور زیادہ کرتا ہے۔ اسے اپنے عیب نظر ہی نہیں آتے۔ ایک پریشان حال خاوند ڈاکٹر کے پاس گیا اور تشویش سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب مجھے لگتا ہے میری بیوی بہری ہوگئی ہے۔ بات کا جواب ہی نہیں دیتی۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا ’’اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ آیا آپ کی بیوی واقعی بہری ہوگئی ہے آپ مختلف فاصلوں سے اس سے بات کریں، اس کا ردعمل دیکھیں اور پھر آکر مجھے بتائیں تب اندازہ ہوگا کہ وہ بہری ہوئی ہے یا نہیں۔‘‘ وہ شخص گھر آیا۔ دروازہ سے پندرہ فٹ کے فاصلے سے ہی پکارا ’’بیگم آج کیا پکایا ہے۔‘‘ بیگم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے دس فٹ کے فاصلے سے پکارا۔ کوئی جواب نہیں۔ پانچ فٹ کے فاصلے سے آواز دی بیگم باورچی خانے میں کام کرتی رہی۔ اس نے بالکل سامنے کھڑے ہوکر کہا ’’بیگم آج کیا پکایا ہے۔‘‘ بیوی نے سر اُٹھایا اور غصے سے بولی ’’چوتھی مرتبہ بتارہی ہوں آلو گوشت پکایا ہے خبردار جو مجھ سے پھر پوچھا‘‘
ساس اور بہو ایک ایسے تعلق کا نام ہے ملکہ برطانیہ بھی جس کی تاب نہ لاسکی۔ نند بھاوج کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ازل سے جلاپے کا رشتہ ہے۔ یہ رشتے ٹام اینڈ جیری کی طرح ہوتے ہیں۔ ساتھ بھی نہیں رہ سکتے اور الگ بھی نہیں ہوسکتے۔ بیوی شوہر کے گھر آتی ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ ساس ہوم اور فائنانس منسٹر ہے۔ سسر فارن منسٹر، شوہر منسٹری آف سپلائی اینڈ ڈیماند اور نند منسٹری آف پلا ننگ اینڈ ڈیو لپمنٹ۔ اس صورت میں بہو کے پاس لیڈر آف اپوزیشن بننے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ جینا ہوگا مرنا ہوگا دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا۔ بد مزاج شوہر ان ہی رشتوں اور ماں بہنوں کو بیوی پر آلات حرب وضرب کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بانو قدسیہ راجا گدھ میں لکھتی ہیں ’’مرد عام طور پر زن مرید ہوتے ہیں لیکن میرا شوہر وحید ماں مرید ہے۔ اماں جی خصاب لگا لو۔ شیشہ لے کر کھڑا ہے۔ اماں جی بیر کھالو موسمی میوہ ہے۔ اماں جی پیر دبادوں آپ کے۔ اماں جی اماں جی۔‘‘ جس طرح پٹھان ہونا ایک قوم نہیں بلکہ ایک کیفیت ہے اسی طرح بد مزاج شوہروں کا ماں پرست ہونا بھی ایک ایسی کیفیت ہے جو ہر وقت ان پر طاری رہتی ہے۔ مقصد ماں کی سیوا نہیں بیوی کو تنگ کرنا ہوتا ہے۔ بیوی شدید رومانٹک موڈ میں ہے اور یہ اس وقت بھی فرما رہے ہیں ’’دیکھو ماں کا خیال رکھا کرو‘‘ ہرنام سنگھ کی شادی ہوئی۔ پہلی رات وہ دلہن کے کمرے میں گیا۔ دلہن لمبا گھونگھٹ کاڑھے پلنگ پر بیٹھی تھی۔ ہرنام سنگھ بیوی کے قریب بیٹھ گیا اور بولا ’’دیکھو بنو۔ تو شادی کرکے اس گھر میں آئی ہے تو اسے اپنا ہی گھر سمجھنا۔ بابوجی گھر کے بڑے ہیں ان کی عزت میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ میری ماں کو یہ احساس نہ ہو کہ تمہارے آنے سے ان کا رتبہ کم ہوگیا ہے۔ میرا بڑا بھائی بھی باپ کی جگہ ہے اور ان کی بیوی کو میں ماں کا درجہ دیتا ہوں۔ تمہیں بھی ان کی اتنی ہی عزت کرنا ہوگی۔ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ تم ان کی بڑی بہن ہو۔ تمہیں سب سے پیار کرنا ہوگا۔ تمہیں سب کی عزت کرنا ہوگی تمہیں سب کا اعتماد جیتنا ہوگا تمہیں سچ بولنا ہوگا‘‘ ہرنام سنگھ ابھی اتنا ہی بول پایا تھا کہ اس کی بیوی چارپائی سے اٹھی۔ کمرے کا دروازہ کھول کر رشتہ داروں کو آواز دیتی ہوئی بولی ’’سب لوگ اندر آجاؤ یہاں وعظ ونصیحت کی محفل ہورہی ہے۔‘‘
جو عشق میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ شوہر کہلاتا ہے اور جو شوہر ہوکر بھی ناکام رہے وہ بدمزاج شوہر کہلاتا ہے۔ اتنے قوم کے دل میں سیاست دانوں کے لیے وسوسے نہیں ہوتے جتنے بد مزاج شوہر کے دل اور دماغ میں بیوی کے لیے ہوتے ہیں۔ انہیں بیوی کی کوئی بات اچھی ہی نہیں لگتی۔ ہمارے ایک دوست ہیں۔ ان کا بیوی کی طرف دیکھنے کو دل نہیں کرتا۔ بیوی کا رنگ کالا ہے۔ ہم سے ملے۔ ہم نے پوچھا آپ کی اماں کا کیا حال ہے۔ بیماری سے جل کر رنگ اور بھی کا لا ہوگیا ہوگا۔ بولے ’’ہاں پہچان میں بھی نہیں آتیں‘‘ ہم نے کہا ’’ماں کا رنگ گورا کرنے کے لیے جو کریم لاتے ہیں بیوی کے لیے بھی وہی لے آیا کیجیے‘‘ بولے ’’بکواس بند کرو‘‘ میاں بیوی کا رشتہ محبت کا رشتہ ہوتا ہے بالکل ایسے ہی کہ جیسے چھڑی کی چوٹ لیلی کے لگتی ہے نشان مجنوں کی ہتھیلیوں پر پڑتے ہیں۔ سنگ مجنوں کے لگتے ہیں تکلیف لیلی کو ہوتی ہے۔ نیند کی گولی بیوی کھاتی ہے سکون شوہر کو ملتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے اہل خانہ کے لیے دودو تین تین نوکریاں کرتے ہیں۔ علی الصباح گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے لوٹتے ہیں۔ لیکن گھر میں ایسے بھرے بندوق داخل ہوتے ہیں کہ ان کے آنے سے خوش ہونے کے بجائے گھر والے سہم سہم جاتے ہیں۔ مجال ہے کوئی اچھی بات، کوئی پر لطف واقعہ، کوئی ہنسی مذاق گھر والوں سے شیئر کرلیں۔ ان بد مزاج شوہروں نے اپنے اندر کے چلبل پانڈے کو اس سختی سے دبایا ہوتا ہے کہ ان پر ہر وقت رنڈاپا طاری رہتا ہے۔ کچھ شوہر ایسے بھی ہیں جن کی بیویوں کو حضرت دلاور فگار مرحوم یہ مشورہ دے گئے ہیں۔
عورت کو چاہیے کہ عدالت کا رخ کرے
جب آدمی کو صرف خدا کا خیال ہو
(برائے ایس ایم ایس: 03343438802)