بھٹو اور قادیانی جماعت

1344

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی آئین کی دوسری ترمیم منظور نہیں ہوئی تھی جس کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اور اس سے بھی بہت پہلے جب ذوالفقار علی بھٹو تاشقند سمجھوتے پر ایوب خان کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے لندن آئے ہوئے تھے اور پیپلز پارٹی کی نیو رکھنے کے جتن کر رہے تھے۔ ان دنوں ان کا قیام لندن کے پرنسس گیٹ میں حئی سنز کے اپارٹمنٹ میں تھا۔ اس زمانہ میں ایوب خان سے معرکہ آرائی کی وجہ سے لندن میں پاکستان کے صحافی ان سے ملنے کی بات تو الگ ان کے سائے سے بھی ٹھٹھکتے تھے۔ میں چوں کہ بھٹوصاحب کو اپنے پڑوسی کی حیثیت سے 1954 سے جانتا تھا جب وہ کراچی کے ممتاز وکیل ڈنگو مل کے چیمبرس سے وابستہ تھے اور سیاست میں پہلا قدم رکھ رہے تھے۔ اس لیے میں بڑی باقاعدگی سے حئی سنز کے اپارٹمنٹ میں بھٹو صاحب سے ملنے جاتا تھا۔ کچھ پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے اور ویسے بھی ان کا بے حد اصرار تھا کہ میں ان سے باقاعدگی سے ملتا رہوں کیوں کہ وہ برطانیہ کے مقتدر پاکستانیوں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جن کی مدد سے وہ یہاں بھی اپنی جماعت منظم کرنا چاہتے تھے۔
جب بھی میں حئی سنز کے اپارٹمنٹ میں بھٹو صاحب سے ملنے جاتا وہاں ایک ان جانے شخص کو بیٹھا ہوا دیکھتا۔ ایک دن میں نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں برطانیہ میں جو پیپلز پارٹی منظم کر رہا ہوں یہ اس کے کنوینر ہوں گے۔ نام ان کا عبد الحمید غازی ہے۔
مجھے ان صاحب کے بارے میں کرید ہوئی۔ پتا چلا کہ ان کا خاندان عدن میں آباد تھا اور یہ چند سال قبل لندن منتقل ہوئے ہیں۔ عبد الحمید غازی کے بارے میں انکشاف ہوا کہ ان کا لندن میں احمدیہ جماعت سے تعلق ہے اور در حقیقت جماعت کی طرف سے بھٹو پر مامور ہیں اور بھٹو اور احمدیہ جماعت کے درمیان رابطہ کار ہیں۔ بھٹو صاحب سے میری قربت دیکھ کر عبد الحمید غازی نے بلا جھجھک یہ اعتراف کیا کہ بھٹو صاحب کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات میں احمدیہ جماعت ان کی بھر پور حمایت کرے، اور احمدیہ جماعت بھی ان کی مدد کرنے کی متمنی ہے کیوں کہ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتیں بھٹو صاحب اور احمدیہ جماعت دونوں کی مشترکہ حریف ہیں۔ میں نے جب عبد الحمید غازی سے پوچھا کہ کیا کچھ طے پایا ہے کہ عام انتخابات میں فتح کے عوض احمدیہ جماعت بھٹو صاحب سے کیا حاصل کرے گی۔ اس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا بس مسکرا کر کہا انتخابات کے بعد آپ کو پتا چل جائے گا۔
اس زمانہ میں مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ بھٹو صاحب کے وزارت خارجہ میں ان اعلیٰ قادیانی افسروں سے بڑے گہرے تعلقات تھے جو قائد اعظم کے مقرر کردہ پہلے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کے زمانے میں بڑی تیزی سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔
1967 میں پیپلز پارٹی کے قیام کے تین سال بعد سن ستر میں عام انتخابات منعقد ہوئے، جن میں قادیانی جماعت نے بھرپور طریقے سے پیپلز پارٹی کی حمایت اور اعانت کی خاص طور پر پنجاب میں۔ مغربی پاکستان میں نتیجہ پیپلز پارٹی کی زبردست جیت میں ظاہر ہوا۔ لندن کے پرنسس گیٹ میں عبد الحمید غازی کی پر اسرار مسکراہٹ کے معنی اس وقت اجاگر ہوئے جب بھٹو صاحب کے برسراقتدار آنے کے بعد قادیانی، حکومت اور مسلح افواج میں اہم عہدوں پر فائز ہوئے، ان میں نمایاں ظفر چودھری تھے جو پاکستان فضائیہ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ان کے ساتھ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ایچ ایچ احمد اور ایک درجن سے زیادہ قادیانی فوجی افسر کور کمانڈر اور اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ منصوبہ بندی کمیشن کے نائب سربراہ ایم ایم احمد کا بھی شمار حکومت میں با اثر احمدی شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں پالیسی ساز اداروں میں قادیانیوں کا اثر اور اختیار ناقابل تنسیخ انداز سے حاوی نظر آتا تھا، جو حزب مخالف میں شامل جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کے لیے گہری تشویش کا باعث تھا۔ حزب مخالف کی طرف سے مفتی محمود اور نواب زادہ نصراللہ نے اس صورت حال پر بھٹو صاحب کی توجہ مبذول کرائی تھی لیکن انہوں نے اس مسئلے کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ مئی 1974 کو ربوہٰ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ پر حملے نے پورے ملک میں آگ بھڑکا دی اور احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے مطالبے کی مہم نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بھٹو صاحب کو بھی حکومت میں قادیانیوں کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ پر تشویش تھی لیکن انہوں نے سیاسی مصلحت کی خاطر حزب مخالف کا مطالبہ تسلیم کرنے اور احمدیوں کے خلاف کوئی اقدام اٹھانے سے انکار کر دیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے علاوہ حزب مخالف کی تمام جماعتوں نے مفتی محمود کی قیادت میں مطالبہ کیا تھا کہ قومی اسمبلی میں ایک بل منظور کیا جائے جس کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ بھٹو صاحب نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا اور انہیں ریاست اور حکومت کے اداروں سے خارج کرنا ملک کی معیشت اور سیاسی استحکام کے لیے تباہ کن ہوگا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ مسئلہ مذہبی ہے لہٰذا اس کے حل کے لیے قومی اسمبلی کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب 14 جون کو حزب مخالف نے کامیاب پہیہ جام ہڑتال کی تو بھٹو صاحب کی مزاحمت متزلزل ہوگئی اور ان کے مشیروں نے بھی یہ مشورہ دیا کہ اس مسئلے پر معرکہ آرائی پارٹی اور حکومت کے لیے سیاسی طور پر نہایت خطرناک ثابت ہوگی۔ آخر کار بھٹو صاحب با دل نہ خواستہ قومی اسمبلی کی ایک خاص کمیٹی میں بند کمرے میں قادیانی مسئلے پر بحث کے لیے راضی ہوگئے اسی کے ساتھ بھٹو صاحب حزب مخالف کے قائدین کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ خاص کمیٹی میں احمدی برادری کے سربراہ خلیفہ مرزا ناصر احمد کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ خاص کمیٹی کے سامنے قرارداد تھی کہ جو شخص رسول اللہ ؐ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتا اور ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ آئین اور قانون کی نظر میں مسلمان نہیں ہے۔ مرزا ناصر احمد نے بند کمرے کے اس اجلاس میں دو سو صفحات پر مشتمل اپنا موقف محضر نامہ کے عنوان سے پیش کیا۔ لاہوری جماعت کے سربراہ صدر الدین نے بھی اپنا موقف پیش کیا۔ خاص کمیٹی میں حزب مخالف کی طر ف سے مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، مولانا مفتی محمود، چودھری ظہور الٰہی اور مولا بخش سومرو شامل ہوئے۔ حکومت کی جانب سے وزیر قانون حفیظ پیر زادہ اور اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار شریک ہوئے۔ مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی نے ختم نبوت کے عقیدہ کی وضاحت کی۔ یہ اجلاس ڈھائی ماہ تک جاری رہا جس کے بعد اس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ 7 ستمبر 1974 کو اس فیصلے کے مطابق آئین میں دوسری ترمیم منظور کی گئی اور قادیانی غیر مسلم قراردے دیے گئے۔
قومی اسمبلی کے اس فیصلے کے پس پشت عوامل کے بارے میں متعدد تاویلیں پیش کی جاتی ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فروری 1974 میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے دوران سعودی عرب کے شاہ فیصل نے بھٹو صاحب پر زور دیا تھا کہ قادیانوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ 1972 میں پاکستان دو لخت ہونے کے بعد سنگین مالی بحران میں گرفتار تھا اور شاہ فیصل کی مالی امداد کی پیش کش ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا۔
ایک تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسی دوران قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر احمد بعض وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے بھٹو صاحب سے ناراض ہو گئے تھے۔ ان دنوں بھٹو صاحب کے لیے یہ خبریں سخت تشویش کا باعث تھیں کہ قادیانیوں کے سربراہ اور ان کے مشیروں نے تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان سے ساز باز شروع کر دی ہے۔ اسی دوران پاکستان فضائیہ کے ایک درجن سے زیادہ افسر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیے گئے تھے۔ فضائیہ کے ان افسروں سے فضائیہ کے سربراہ ظفر چودھری کے تعلق کا انکشاف ہوا تھا جس کے نتیجے میں انہیں اپنے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا۔
بتایا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کو قادیانیوں کی اس سازش پر سخت صدمہ پہنچا تھا اور قادیانیوں پر ان کا اعتماد متزلزل ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر مخالفت کے باوجود وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قراردینے کے فیصلے کے حامی تھے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ بھٹو صاحب کو جن کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، جسے اسلامی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ قرار دیا گیا، پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے داعی جنرل ضیا الحق کے دور میں پھانسی دے دی گئی، اس فوج کے سربراہ کی حکمرانی کے دور میں جس فوج کے سہارے بھٹو صاحب سیاست کے میدان میں داخل ہوئے تھے، بنگلا دیش کے بحران میں جس فوج کا انہوں نے بھر پور ساتھ دیا اور سیاسی طعنے سہے تھے۔ اسی فوج کو شکست خوردگی کی دلدل سے نکالا، ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور ملک کا وقار اور عوام کی عزت نفس بحال کی۔ ملک کا پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ جس پر ہندوستان کا قبضہ تھا آزاد کرایا پھر 1972 میں اسی فوج کے 93ہزار فوجیوں کو جو ہندوستان میں ناامیدی کے عالم میں قید کاٹ رہے تھے شملہ کے مذاکرات کے نتیجے میں رہا کرا کے وطن لائے تھے اور ایک نئی مضبوط فوج منظم کی۔ دیکھو تو کدھر آج رُخِ باد صبا ہے۔