انٹر نیشنل بک فیئر

438

جسارت:اپنا اور ادارے کا تعارف بیان کر دیں ؟

عزیز خالد: میں پاکستان پبلشرز اینڈ بک فیئر ایسوسی ایشن کا چیئرمین ہوں۔ پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن نے 2005ء میں پہلا انٹر نیشنل بک فیئر کا منعقد کیاجو کہ کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کے نام سے ہوا۔کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کو منعقد کرنے کا پہلا مقصد پاکستان کا ایک سافٹ امیج دنیا کو بتانا تھا، دوسرا مقصد پاکستان کے اندر کتب بینی کو فروغ دینا تھا، تیسرا پاکستان کی پبلشرز انڈسٹری کو پروان چڑھانا تھا۔ یعنی یہ کہ پبلشرز انڈسٹریز جب بک فیئر میں آئیں گی، کتابیں فروخت کریں گی تو انہیں خوشی ہوگی ، نئی نئی طرح کی کتابیں بھی سامنے آئیں گی۔چوتھا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں جو لوگ کتابیں پڑھنے کاشوق رکھتے ہیں اور انہیں خریدنا چاہتے ہیں، انہیں ایک ہی مقام پر تمام اقسام کی کتابیں حاصل ہوجائیں کیوں کہ کتابوں کی دکانیں اردو بازار تک محدود ہوگئیں ہیں، پارکنگ کا ایک الگ مسئلہ ہے، آنے جانے کا مسئلہ ہے،۔ اس طرح کے کتاب میلوں کے انعقاد سے ایک فیملی شو ہوجاتا ہے جس میں خواتین، بچے، بوڑھے سب ایک ہی جگہ ایک چھت کے نیچے آتے ہیں۔ اصل میں کراچی ایکسپو سینٹر ایسی جگہ ہے جہاں ہم ان کو پورا تحفظ دیتے ہیں،صاف ستھرا ماحول دیتے ہیں، جب یہ تمام چیزیں ان کو حاصل ہوتیں ہیں تو وہ پورے سکون کے ساتھ کتابوں کی خرید و فروخت بھی کرتی ہیں، چاہے وہ مذہب کی کتابیں ہوں یا ادب کی یا وہ قانون پر مبنی ہوں۔ یعنی تمام اقسام کی کتابیں آپ کو ایک چھت تلے مل جائیں گی۔ اس بک فیئرکی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے پبلشرز کو پاکستان کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان کو پاکستان آکر کراچی سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔ ان کو جو یہ بتا یا جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی ہے، پاکستان میں سفر محفوظ نہیں، پاکستان میں خواتین کا استحصال ہوتا ہے،تو جب وہ یہاں آتے ہیں تو ان کو معلوم ہوتا ہے مختلف اداروں اور شعبہ جات کی ذمے داران خواتیں ہیں، ملک میں سکون ہے، کراچی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب وہ پاکستان آتے ہیں تو مختلف ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں جس سے ہوٹل انڈسٹری کو استحکام حاصل ہوتا ہے، ٹیکسی والوں کی آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے، پاکستان کی اکانومی بھی استحکام پاتی ہے۔یہ تمام چیزیں آپ کے ملک کا ایک مثبت امیج بناتی ہیں۔ اب ہم آجائیں کہ بک فیئر سے کیا فوائد ہوتے ہیں؟ تو دیکھیے پاکستان ایک تھرڈ ورلڈ کنٹری ہے، حکومت پاکستان کہتی ہے کہ ہمارے یہاں 25فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں اصل میں حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں 10فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور 90فیصد لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ تو جب آپ کتابوں کا میلہ کرتے ہیں یا آپ دنیا بھر سے کتابیں لے کر یہاں آتے ہیں، تو بچوں کے اندر شوق پیدا ہوتا ہے اسکول و کالج کے طلبہ اس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے ملک میں تعلیم کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ایک پبلشر کیا کرسکتا ہے؟ تو وہ یہ کر سکتا ہے کہ جو اس وقت پبلشرز ایسوسی ایشن کر رہی ہے۔ تو یہ ہم نے اور ہمارے سب دوستوں نے مل کے جن کا کراچی سے لے کر پشاور تک کی پبلشنگ انڈسٹری سے تعلق ہے ان سب نے یہ طے کیا ہے کہ پاکستان کو اس کی صحیح نمائندگی ملنی چاہیے، پاکستان کی صحیح عکاسی ہونی چاہیے اور ہم نے یہ طے کیا کہ اپنے بچوں کے لیے ہم دنیا بھر کی کتابیں اپنے ملک میں لے کر آئیں۔ پہلی نمائش ہم نے کراچی میں ایک ہال سے شروع کی تھی اب الحمدللہ ہم 3ہال تک آگئے ہیں۔ یہ تمام کامیابیاں اللہ تعالی نے ہمیں وقت کے ساتھ عطا کیں۔ ہماری اس کامیابی میں کراچی کے لوگوں کو اہم کردار ہے، خصوصاً نوجوان ماؤں کا جن کے 1یا 2 بچے ہوتے ہیں، وہ ان بچوں کے ساتھ اس میں شریک ہوتیں ہیں، اس نمائش کی کامیابی میں مڈل کلاس کا بھی بڑا کردار ہے۔ آپ کہیں گے کیوں؟ تو دیکھیں کسی بھی ملک کی معیشت کو ناپنے کا پیمانہ اس کی مڈل کلاس ہے۔وہ آدمی جو 120 گز کے مکان میں رہتا ہے، پرانی موٹر سائیکل پر دفتر جاتا ہے لیکن اپنے بچوں کو بہترین اسکول میں پڑھانا چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ہم بات کریں اردو زبان کی تو اردو زبان کی کتابوں کی خرید و فروخت متاثر ہے لیکن آپ بک فیئر میں دیکھیں گے کہ ضعیف العمر افراد آپ کو کتابیں خریدتے نظر آئیں گے۔مختلف عنوان کے تحت بہترین کتابیں نظر آئیں گی، بیرون ممالک کے پبلشرز کو پاکستان ایک نئی مارکیٹ کے طور پر نظر آتا ہے۔ گزشتہ سال ترکی سے ہمارے پاس 6 سے 7پبلشرز آئے تھے اور انہوں نے اس سال پاکستان کے پبلشرز کے ساتھ مختلف معاہدے کیے، تو اب ترکی کی کتابیں بھی پاکستان آئیں گی بلکہ اس سال سے آنی شروع ہوگئی ہیں۔

1
جسارت: کیا کراچی انٹرنیشنل بک فیئر میں دوسرے شہروں یا صوبوں کے پبلشرز بھی شامل ہوتے ہیں؟

عزیز خالد: پاکستان پبلشرز ایسوسی ایشن پبلشرز کی واحد نمائندہ جماعت ہے جو کراچی سے لے کر پشاور تک کے تمام پبلشرز پر مشتمل ہے۔ اس کے 2 زون ہیں ایک ساؤتھ زون جو سندھ اور بلوچستان پر اور دوسرا نارتھ زون پنجاب اور خیبر پختونخوا پر مشتمل ہے ، کراچی ساؤتھ زون میں شامل ہے۔
جسارت: 2017ء کی بک فیئر میں آپ نے ایکسپو کے کتنے ہال حاصل کیے ہیں؟
عزیز خالد: اس دفعہ ہم نے بک فیئر کے لیے ایکسپو کے ہال نمبر 1، 2 اور 3 حاصل کیے ہیں۔
جسارت: کن کن ممالک کے پبلشرز بک فیئر میں شرکت کر رہے ہیں؟
عزیز خالد: ترکی کے وائے ڈی ایس، انڈیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، اور دیگر کئی ممالک کے پبلشرز شرکت کررہے ہیں۔
جسارت: 7 تا 11دسمبر بک فیئر میں آپ کا ادارہ مزید کیا سرگرمیاں کرتا ہے؟
عزیز خالد: مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والے پبلشرز کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں، ادیبوں کو ایوارڈ ز سے نوازا جاتا ہے ۔
جسارت: اس بک فیئر کے روزانہ کے اوقات کار کیا ہوں گے؟
عزیز خالد: صبح 10بجے سے رات 9 بجے تک کے اوقات ہوں گے۔ پہلے دن کا آغاز دوپہر 2 بجے سے ہوگا جب کہ اسکول کے بچے پہلے دن ہی صبح 9 بجے آنا شروع ہوجاتے ہیں جنہیں ہم آنے دیتے ہیں روکتے نہیں۔
جسارت:کون کون سے پاکستانی تعلیمی ادارے اس میں شریک ہوتے ہیں؟
عزیز خالد:سندھ بھر کی تمام جامعات، میڈیکل کالجز، لاء کالجز سمیت سب ہی شریک ہوتے ہیں اور بڑی تعداد میں کتابیں خریدتے ہیں۔
جسارت: اس بک فیئر میں کون کون سی شخصیات شریک ہوں گی؟
عزیز خالد: تمام علمی، سیاسی اور سماجی شخصیات شریک ہوتی ہیں، علم کے فروغ کے لیے ہم بلا تفریق دعوت دیتے ہیں اور الحمدللہ سب ہماری دعوت کو قبول کرتے ہیں اور شرکت کرتے ہیں۔ بیرون ممالک سے بھی علمی شخصیات اور خصوصاً کئی ممالک کے سفارت کار بھی شریک ہوتے ہیں۔
جسارت: کیا کتابوں پر کوئی خصوصی رعایت ہوگی ؟
عزیز خالد: جی کئی ادارے خصوصی رعایت فراہم کرتے ہیں جو کہ 15سے 50فیصد تک ہوتی ہے۔
جسارت:بک فیئر کے حوالے سے کراچی کے شہریوں کے لیے کوئی خصوصی پیغام دیجیے گا؟
عزیز خالد: میں کراچی کے شہریوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ تعلیم سے محبت کرتے ہیں اور جو لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ تعلیم کتنی ضروری ہے وہ خود بھی اس بک فیئر میں آئیں اور اپنے گھر کے بزرگوں، بچوں اور خواتین کو لے کر آئیں۔ ہمیں امید ہے کہ کراچی کے لوگوں کو ہماری یہ کوشش ضرور پسند آئے گی۔