قلم سے رشتہ کی تجدید کے لیے حریم ادب پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا 

345

ادب اور زندگی کا ہے چو لی دامن کا ساتھ ،قلم ہے جذبوں کا بہترین عکاس

حریم ادب کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے، پاکستان کی پہلی دہائی میں اس کی بنیاد کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اسلام پسند خواتین نے اپنا ایک ادبی محاذ قائم کیا جس کا سلوگن تھا ’’ ادب برائے زندگی ‘‘ زندگی برائے بندگی ‘‘ اس کی سر پرست محترمہ حمیدہ بیگم تھیں۔ حمیدہ بیگم کے ساتھ جو ارباب بست و کشاد شامل تھے ، ان میں محمودہ خانم (بیگم ابو الاعلیٰ مودودی) ،بنت الاسلام ، نیر بانو ، رخشندہ کوکب ، ام زبیر ، زہرہ وحید ، زبیدہ بلوچ، سعیدہ احسن ، طیبہ یاسمین ، بیگم زبیدہ اسد گیلانی اور عفت قریشی صاحبہ شامل تھے ۔ بعد میں اور لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا، ان لوگوں نے طے کیا کہ ہر تین ماہ بعد ادبی نشت کا اہتمام کیا جائے جو انہوں نے ’’بزم ادب ‘‘ کے نام سے شروع کی تاکہ اس میں لکھنے والے اپنی تحریریں پڑھیں اور جو قابلِ اشاعت ہوں انہیں چھپنے کیلئے دیا جائے ۔1950ء کی دہائی سے 1980ء تک یہ نشستیں کبھی کبھار ہوتی رہیں مگر ان میں تسلسل نہیں تھا ۔1981ء میں اسے دوبارہ تشکیل دینے کا پروگرام بنا اور پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ہر ماہ کی آخری جمعرات کو ادبی نشستیں منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا 1981ء لاہور میں اس ادبی محفل کا باقاعدہ آغاز مولانا مودودی صاحب کی منجھلی صاحبزادی اسماء مودودی صاحبہ کے ہاں سے ہوا ۔ مسز زینب کا کا خیل ( سابق پرنسپل اسلامیہ کالج) ہماری حریم ادب کی پہلی صدر تھیں۔ ہمیشہ وقت پر پہنچتیں ان کے ایک جانب خاموش طبع سی بنت الاسلام صاحبہ جو لاہور کالج کے شعبہ اسلامیات کی ہیڈ تھیں اپنی ہلکی سی مسکراہٹ میں حزن لئے بیٹھی ہوتیں ۔ بیگم مودودی کچھ دیر سے تشریف لاتیں ان کے ساتھ معروف افسانہ نگار ( ساحرہ ایم اے ) سعیدہ احسن اور ثریا اسماء ہوتیں ۔ معروف ناول نگار عفت قریشی ، مزاح نگار طیبہ یاسمین اور رونق محفل معروف شاعر ہ بنت مجتبیٰ مینا سمیت تمام خواتین ملکاؤں کے سے طمطراق سے تشریف فرما ہوتیں ۔تلاوت قرآن پاک کے بعد ادبی محفل کا آغاز ہوتا ۔ سبھی خواتین اپنی اپنی منجھی ہوئی تحریریں پڑھتیں۔ نہایت توجہ اور دلچسپی سے سبھی کے ایک ایک ایک لفظ کا بغور جائزہ لیا جا تا، حریم ادب کے تحت مختلف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جیسی ان سب کی شخصیت میں وضع داری تھی ویسی ہی ان کی تنقید میں بھی تھی ۔ جو رکھ رکھاؤ اور سلیقہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنایا ہوا تھا وہی ان کی تنقید میں بھی دکھائی دیتا تھا۔ جیسی وہ عام زندگی میں صلح جو قسم کی خواتین تھیں ویسی ہی وہ اپنی تنقید میں بھی تھیں ادب کے تنقیدی میدان میں ہمیشہ ہموار راستہ اپنایا اور اسی ہمواری نے ان سے بے شمار کام لیے۔حریم ادب کا ہم پر یہ احسان ہے کہ ہم نے حریم ادب سے ایثار، رواداری، جہد مسلسل، سادگی، قناعت، سیر چشمی ، حکمت و دانائی ،خوش خلقی، تہذیب و شائستگی کے اسباق سیکھے ہیں ۔ حریم ادب نے نہ صرف ہمارے جملوں اور لفظوں کی تراش خراش کی ہے بلکہ ہماری شخصیت کو بھی بنا سنوار کر اس میں نکھار پیدا کیا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے حریم ادب نے کراچی ایکسپو میں کتابوں کی نمائش میں اسٹال لگایا اور بہت افراد تک رسائی حاصل کی۔ اس وقت کراچی، لاہور، ملتان میں حریم ادب باقائدہ طور پر کام کررہا ہے اور اس کے تحت مختلف ادبی نشستیں اور خواتین قلمکاروں کے ساتھ نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔ جدید دور کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آن لائن بھی حریم کی محفلیں ہوتی ہیں جس سے ملک سے باہر رہنے والے افراد بھی بھرپور انداز سے مستفید ہوتے ہیں۔
اب حریم لا رہا ہے آپ کے لیے ایک اور موقع بین الاقوامی کتب نما ئش ایکسپو سینٹر کرا چی ۔
مورخہ ۷ تا ۱۱ دسمبر ۲۰۱۷
آپکی آمد ہمارے لیے باعث مسرت و صد افتخار ہوگی
حریم ادب
اصلاحی ادبی انجمن خواتین پاکستان