آخر کار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انتظامیہ کی دیرینہ خواہشات پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے قبلہ اول مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سے تمام عالم اسلام میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ ہر مسلم ملک کی حکومت اور حکمران اس اقدام کی مذمت کررہے ہیں۔ اگلے دن سعودی حکومت کی طرف سے بھی بیان سامنے آگیا گو کہ یہ سعودی حکمران ملک سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے نہیں تھا۔ سعودی عرب کو عالم اسلام میں ایک قائدانہ حیثیت حاصل ہے چنانچہ اس کی طرف سے زیادہ سخت بیان کی توقع کی جارہی تھی اور یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے مغربی ذرائع ابلاغ سعودی حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں ۔ سعودی عرب کی طرف سے تردید کے باوجود عوام الناس پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے اس احمقانہ اقدام سے پورے مشرق وسطیٰ میں جنگ اور بدامنی کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ فلسطینی مجاہدین کی تنظیم حماس ( حرکت المقاومت اسلامیہ) نے کہا ہے کہ ’’ ٹرمپ کے فیصلے نے جہنم کے دروازے کھول دیے‘‘۔ یہ بہت صحیح اوربھرپور ردعمل ہے اور ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔ حماس نے دوبارہ انتفاضہ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے سے فلسطینی مجاہدین پر تو کوئی فرق اس لیے نہیں پڑے گا کہ وہ تو برسوں سے صہیونیوں سے برسر پیکار ہیں اور شہادتیں دیے جارہے ہیں ۔ ان کی جدوجہد مزید تیز ہو جائے گی۔ اور ممکن ہے کہ امریکا اپنے صہیونی شریک کار کی حمایت میں حماس پر حملے شروع کردے۔ لیکن بات صرف فلسطین یا حماس تک محدود نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹرمپ نے پوری امت مسلمہ پر حملہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ ’’ امریکا کی اسلام دشمنی کا اس سے بڑا نمونہ پہلے کبھی نہ دیکھا‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کیا کریں گے؟ کیا صرف چند دن واویلا کر کے، احتجاجی مظاہرے اور زور دار بیانات دے کر خاموش ہو کر بیٹھ رہیں گے؟ اب تک ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ امریکا کی اسلام دشمنی کا یہ سب سے بڑا اور سب سے برا نمونہ بے شک ہے لیکن امریکا تو ایسے نمونے باربار پیش کرچکا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکا کی ہر جنگ مسلم ممالک اور مسلمانوں کے خلاف رہی ہے۔ خاص طور پر 1987ء کے بعد سے امریکا کے جتنے حملے ہوئے سب مسلم ممالک اور مسلمانوں پر ہوئے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام ہر جگہ مسلمانوں ہی کا قتل عام کیا گیا۔ افغانستان اور شام پر آج بھی حملے ہور ہے ہیں اور مسلمان مارے جارہے ہیں۔ امریکا کی شہ ہی پر اسرائیل بھی مسلمانوں کوشہید کررہا ہے اور ان کی املاک پر قبضے کررہا ہے۔ اب امریکا نے بیت المقدس بھی صہیونیوں کے حوالے کردیا حالاں کہ اقوام متحدہ اسے متنازع قرار دے چکی ہے اور سلامتی کونسل کے 15میں سے 14ارکان نے اسے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی مخالفت کی تھی۔ 15ویں رکن امریکا نے اس قرار داد کو مسترد(ویٹو) نہیں کیا تھا تاہم رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے بھی کوئی اختلاف نہیں تھا اور سلامتی کونسل کی قرار داد منظور کرلی گئی تھی۔ ویسے تو امریکا کی یہ روایت ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی ہر قرار داد کو ویٹو کرتا رہا ہے لیکن مذکورہ قرار داد کو ویٹو نہیں کیا۔ آج وہی امریکا سلامتی کونسل کی قرار داد کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ تو کیا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اس موقع پر امریکا کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرے گی یا محض مذمت کر کے بیٹھ رہے گی۔ یوں تو یورپی ممالک نے بھی ٹرمپ کے اقدام کی شدید مذمت کی ہے مگر مسلم ممالک کو سوچنا ہوگا کہ وہ اس موقع پر امریکا کے خلاف کیا قدم اٹھاتے ہیں ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا ہے کہ مسلم دنیا امریکا کے ناپاک منصوبے کی حمایت نہیں کرسکتی، پاکستان سرکاری سطح پر امریکی اعلان کی سخت مذمت کرے۔ ٹھیک ہے، مذمت بھی ہو رہی ہے اور مسلم دنیا اس ناپاک منصوبے کی حمایت بھی نہیں کررہی مگر امریکا کو اس اقدام سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ تنظیم اسلامی کانفرنس، عرب لیگ وغیرہ تمام مسلم ممالک کے ساتھ مل کر کوئی فیصلہ کریں کہ اب کیا کرنا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام مسلم ممالک امریکا سے اپنے سفیر واپس بلا لیں لیکن شاید اتنی جرأت نہ ہو۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا سے شمالی کوریا کے تمام کارکنوں کو نکال دیا جائے کیوں کہ وہ جو کچھ امریکا سے کماتے ہیں وہ شمالی کوریا کے ایٹمی منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ مسلم ممالک بھی اس امریکی مثال پر عمل کرنے کی ہمت کریں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے پیشرو امریکی صدور بھی یہی چاہتے تھے لیکن ان میں ہمت نہیں تھی۔ ٹرمپ نے تو عالم اسلام کے خلاف اپنی ہمت کامظاہرہ کردیا ۔کیا متعدد مسلم ممالک ہمت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے؟ سابق امریکی صدر بش نے صلیبی جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس پرتنقید ہوئی تو اسے زبان کی لغزش قراردیا گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ نصاریٰ اب تک صلیبی جنگوں میں ہونے والی پے درپے شکستوں کو نہیں بھولے ہیں جن میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں سے آزاد کرایا تھا اور پورے یورپ کی عیسائی دنیا کو شکست دی تھی۔ کیا امت مسلمہ کو اب تک یہ بات میں سمجھ نہیں آئی کہ اس کے خلاف کیا ہور ہا ہے اور ایک ایک کر کے تمام مسلم ممالک کو ختم کرنا یا کمزور کردینے کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے۔ کاش! ٹرمپ کے اس اقدام سے امت مسلمہ ہوش میں آجائے اور اس شر سے خیر برآمد ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس اقدام کی حمایت میں کہا کہ (مقبوضہ) بیت المقدس کو اسرائیل کادارالحکومت بنانے سے یہودی، عیسائی اور مسلمانوں میں امن قائم ہوگا اور اس کے لیے تینوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ ٹرمپ کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ کیا ان کو نہیں معلوم کہ اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس میں کیا کررہاہے۔ وہ اس کی مسلم شناخت بدل رہا ہے۔ بیت المقدس کے اطراف سے مسلمانوں کو نکال کر یہودیوں کو بسارہا ہے اور یہودی بار بار بیت المقدس کی بے حرمتی کررہے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہا ں یہودیوں کو بسایا جارہا ہے اور ٹرمپ امن کی توقع کررہے ہیں۔ ٹرمپ کا داماد کشنر یہودی ہے اور ٹرمپ اسی کے اشاروں پر چل رہے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کی بیٹی بھی یہودی مذہب قبول کرچکی ہے۔ تل ابیب میں 86ممالک کے سفارت خانے ہیں۔ یورپ سمیت جن ممالک نے ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کی ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے سفارت خانے بیت المقدس منتقل نہ کریں ۔ بین الاقوامی خبر ایجنسیوں اور تجزیہ نگاروں نے بعض عرب ممالک پر بھی الزام لگایا ہے کہ انہوں نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے میں سودے بازی کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے فلسطینی صدر محمود عباس کے دورہ سعودی عرب میں ان کے سامنے مسئلہ فلسطین کا نیا فارمولا پیش کرتے ہوئے القدس سے دستبرداری کا مطالبہ کیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق منصوبے کے تحت غرب اردن کے کئی علاقے اسرائیل کا حصہ قرار دیے جائیں گے اور فلسطینیوں کی خود مختاری مزید محدود ہوگی۔ امریکی اخبار نے اسے ’’صدی کی بڑی سودے بازی‘‘ قرار دیا ہے لیکن امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے یہ سعودی عرب کوبدنام کرنے کی سازش ہو۔ لیکن ٹرمپ نے اتنا بڑا قدم کچھ عرب ممالک کی طرف سے یقین دہانیوں کے بعد ہی اٹھایا ہے۔