نئی سیاسی صف بندیاں

547

عام انتخابات سے پہلے سیاست میں نئی صف بندیاں شروع ہوگئی ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک دشمنی کی حد تک مخالفت کرنے والے باہم قریب آرہے ہیں۔ بظاہر تو سیاسی جماعتوں کی قربت اوریگانگت اچھی بات ہے لیکن یہ اقتدار میں حصہ لینے کے بجائے وسیع تر قومی مفاد میں ہو تو احسن ہے۔ مگر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت ہو یا سیاسی جماعتیں ہر ایک کا اپنا اپنا نظریہ ’’قومی مفاد‘‘ ہے جو قومی سے زیادہ ذاتی ہوتا ہے۔ تاہم آج کل جو ہو رہاہے اس سے ایک بات بہت نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ سیاست دانوں کو بولتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں کل کلاں کو اسے واپس لینا اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر شرمندگی اور معذرت کا اظہار ہوتا نہیں ہے۔ اسے بے شرمی کہنا تو شاید مناسب نہ ہو لیکن اس لفظ کا کوئی معقول متبادل بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شیخ الاسلام کہلانے والے حضرت طاہر القادری 2004ء کے دھرنے میں فرما رہے تھے کہ میں آصف زرداری کی زبان گدی سے کھینچ لوں گا۔ یہ ایک مشکل کام تھا چنانچہ اسے بھلا کر طاہر القادری اور آصف علی زرداری مل بیٹھے ہیں اور مستقبل کے نئے اتحاد کی بنیاد رکھ دی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو آصف علی زرداری اور طاہر القادری نے بڑی گرم جوشی سے ملاقات کی اور اس موقع پر پیپلزپارٹی کے اہم رہنما قمر زماں کائرہ بھی موجود تھے۔ کائرہ صاحب ’’ شیخ الاسلام ‘‘ کی نقلیں اتار کر اپنے حواریوں کو محظوظ کرتے رہے ہیں خاص طورپر انہوں نے دھرنے کے دوران جو نعرے لگائے تھے مبارک ہو مبارک ہو۔ قمر زماں کائرہ نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے علاوہ طاہر القادری کے حلیے کا بھی مذاق اڑایا کہ اونچی سفید ٹوپی پہن کر تو بالکل پوپ لگتے ہیں کبھی یہی صاحب پاکستان میں رہ کر عام سی جالی دار ٹوپی پہنتے تھے۔ پیپلز پارٹی، مسلم ن لیگ کے خلاف پیٹ (PAT) سے پینگیں بڑھا رہی ہے۔ وہ ہی کیا دیگر جماعتیں بھی طاہر القادری کی پشت پر کھڑی ہیں ۔ یہ جو نیا اتحاد بننے جارہا ہے اس میں طاہر القادری نے مرکزی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی طاہر القادری کے ساتھ ہے تو دوسری طرف عمران خان بھی طاہر القادری کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ پیٹ‘‘ نے دھرنا دیا تو ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ عمران خان نے حال ہی میں جمعیت علما اسلام کے سمیع الحق دھڑے سے اتحاد کیا ہے۔ چنانچہ اگر عمران خان طاہر القادری کے دھرنے یا احتجاج کا ساتھ دیں گے تو ان کے نئے اتحادی مولانا سمیع الحق بھی عمران کی محبت میں میدان میں آئیں گے۔ اس طرح بالواسطہ طور پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف طاہر القادری کی چھتر چھایا میں قریب آئیں گے۔ اس اثنا میں ایم کیو ایم کے نئے دھڑے پاکستان سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے بھی طاہر القادری سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور طاہر القادری نے انہیں لاہور آ کر ملنے کی دعوت دی ہے۔ بظاہر تو یہ ساری صف بندی ن لیگ کے خلاف ہو رہی ہے لیکن صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور سمیع الحق گروپ کا گٹھ جوڑ دراصل مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کے خلاف ہے۔ عمران خان کو خدشہ ہے کہ ن لیگ اور جے یو آئی کے اشتراک سے صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسے بچانے کے لیے مولانا فضل الرحمن کے حریف کا تعاون حاصل کرنا ضروری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ن لیگ ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر متحدہ مجلس عمل کی بحالی بھی خطرے میں ہے۔ جو منظر تشکیل پا رہا ہے وہ کچھ ایسا ہے کہ طاہر القادری بیچ میں ہوں گے اور ان کے دائیں بائیں آصف زرداری اور عمران خان، پشت پر مولانا سمیع الحق۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے اسے مسلم لیگ ن کی طاقت کا ثبوت قرار دیا ہے کہ اس کے خلاف سب ایک صف میں کھڑے ہیں۔ لیکن بالفرض ن لیگ عام انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کرسکی اور اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہی تو حکومت کون بنائے گا۔ گزشتہ جمعرات ہی کو ایک طرف تو عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلے وزیر اعظم وہ ہوں گے اور دوسری طرف آصف زرداری اعلان کررہے ہیں کہ اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ اور وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم بلاول زرداری ہوگا اور وہ صدر ہوں گے۔ یعنی کسی بھی قسم کا اتحاد بنے حکومت بنانے کے معاملے پر سر پھٹّول ہوگا اور آج جو متحد ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ، انتخابات کے بعد پورا پورا خدشہ ہے کہ جوتیوں میں دال بٹے گی۔ فی الوقت اس اجتماع ضدین سے زیادہ بڑا خطرہ ان جماعتوں سے ہے جو مذہب کے نام پر ن لیگ کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ یہ جماعتیں حمید الدین سیالوی کی قیادت میں کل بروز اتوار ایک اہم جلسہ کررہی ہیں اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے استعفا طلب کررہی ہیں ۔ حمید الدین سیالوی کا دعویٰ ہے کہ کل کے جلسے میں وہ 14ارکان قومی اسمبلی اور 18ارکان پنجاب اسمبلی کے استعفے پیش کریں گے۔ یہ سب ارکان مسلم لیگ ن کے ہیں اور شیخ سیالوی نے ن لیگ کے سر پر سے اپنا دست شفقت اٹھا لیا ہے۔ مذکورہ ارکان اسمبلی کسی نہ کسی درگاہ کے مرید ہیں اور بیشتر کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ان کا مستعفی ہونا ن لیگ کی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ بنیادی وجہ امیدواروں کے حلف نامے میں تبدیلی ہے جس پر اسلام آباد اور لاہور میں دھرنے بھی دیے گئے اور وفاقی وزیر قانون کی قربانی دی گئی۔ ایک مطالبہ ماننے کے بعد مطالبات کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں ۔ ثناء اللہ کے علاوہ اور بھی کئی لوگوں کی قربانی دینی پڑے گی۔ اس پر مستزاد رانا ثناء اللہ کا رویہ کہ لوگ استعفا دے کر تو دکھائیں۔ اس پوری صورت حال پر سرسری نظر ڈ النے ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ معاملات نواز شریف اور ن لیگ کی حکومت کی نالائقی سے خراب ہوئے۔ نواز شریف اقتدار سے گئے اور اب مجوزہ اتحاد شہباز شریف کے خلاف ہے۔ زرداری اور قادری کہتے ہیں کہ شہباز شریف کو مزید برداشت نہیں کریں گے اور عمران خان نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ہے۔ کچھ جماعتیں نئے دھرنے کی تیاری کررہی ہیں ۔ طاہر القادری نے حکم دے دیا ہے کہ کنٹینر تیار رکھا جائے۔ یہ کھیل عام انتخابات کے اعلان تک چلتا رہے گا۔