جلال و رزئی
پشتون خواملی عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز کی اتحادی ہے۔ اس اتحاد کا بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف بھی حصہ ہیں۔ نیشنل پارٹی اور جے یو آئی ف نے مرکزی حکومت میں وزارتیں لی ہیں، جب کہ پشتون خوا میپ نے وزارتیں نہیں لی ہیں۔ البتہ صوبے میں حکومت کا اہم حصہ ہے اور مخلوط حکومت میں اچھا خاصا حصہ لے رکھا ہے۔ اس سال پشتون خوا میپ نے اپنے قائد و بانی عبدالصمد خان اچکزئی کی 44ویں برسی پر میاں نواز شریف کو بھی مدعو کیا۔ 2دسمبر کو ہونے والا یہ جلسہ عام ایسے وقتوں میں منعقد ہوا کہ جب ملک کی سیاسی جماعتیں اور سنجیدہ حلقے جمہوریت کو درپیش خطرات کی تشویش میں مبتلا ہیں۔ عوام کی منتخب حکومت کے گرد دائرہ محدود کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اس مذموم عمل میں بدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح سیاست دان ہی صف اول میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ ملک میں حقیقی جمہوری نظام خواب و خیال ہی رہا ہے۔ جمہوریت کی باگیں ایسی جماعتوں اور شخصیات نے تھام رکھی ہیں کہ جو جمہوری روایات اور اصولوں پر پورا نہیں اُترتے۔ یعنی سیاست پر تاجر، سرمایہ دار، جاگیردار، نواب، خوانین، جرائم پیشہ گروہ یا وہ چھائے ہوئے ہیں جو طالع آزماوں کے محض ایک اشارہ پر قبلہ تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یا پھر گروہی و جماعتی مفادات کے تحت جمہوریت کی پاس داری کی دعوے داری ہو رہی ہے۔ بہر حال ملک وعوام کا مستقبل جمہوریت ہی سے وابستہ ہے۔ چناں چہ اس بار مخدوش سیاسی حالات کے تحت پشتون خوا میپ نے اپنے بانی کی برسی پر ’’حقیقی وفاقی، پارلیمانی، جمہوری سیاسی نظام کے قیام، آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے دفاع‘‘ کے عنوان کے تحت منائی۔ بلاشبہ یہ عنوان پاکستان کی تاریخ میں روندا گیا ہے، اسے پنپنے نہیں دیا گیا۔
ایوب اسٹیڈیم میں بڑا جلسہ ہوا۔ پہلے پہل صادق شہید فٹبال گراؤنڈ کا انتخاب ہوا تھا جو وسطی شہر میں واقع ہے۔ سیکورٹی خدشات، شاہراہوں کی تنگی اور ٹریفک کے نظام میں خلل جیسے مسائل کی وجہ سے جلسہ ایوب اسٹیڈیم میں کرنے کا فیصلہ ہوا۔ آخری وقتوں میں جلسہ گاہ کی تبدیلی ہوئی۔ جب کہ تشہیر صادق شہید گراؤنڈ کی گئی تھی۔ پارٹی اچھی تنظیم کی حامل ہے، اس بنا پر جگہ کی تبدیلی کے باوجود جلسہ عام پر کوئی فرق نہ پڑا۔ گویا میاں محمد نواز شریف نے کوئٹہ میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ میاں نواز شریف کے خطاب میں روانی اور تسلسل تھا۔ ٹی وی چینلز پر ان کی پوری تقریر دکھائی گئی۔ جس کے بعد بعض چینلز نے رد عمل کے لیے شیخ رشید کو لائن پر لیا۔ تعجب ہوا جب شیخ رشید نے کہا کہ جلسہ ناکام تھا۔ میں نے شیخ رشید کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ ٹی وی نہیں دیکھتا اخبارات سے خود کو باخبر رکھتا ہے۔ تو اگر کسی نے شیخ رشید کو جلسہ کی ناکامی کی اطلاع دی ہے تو یقیناًراوی جھوٹا ہے، اور شیخ رشید سے بھی جھوٹ بلوایا۔ اور اگر شیخ رشید نے خود ٹی وی پر جلسہ دیکھنے کے باوجود ناکامی کا اعلان کردیا تو یا تو ان کی بصارت کمزور ہے یا نواز شریف کی دشمنی میں جھوٹ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ ویسے شیخ رشید آج کل خود کو جمہوریت، احتساب اور شفافیت کے بڑے داعی کے طور پر پیش کررہا ہے۔ حالاں کہ یہ آمر پرویز مشرف کا وفادار تھا۔ 12مئی 2007 کو جب چودھری افتخار کی آمد کے موقع پر الطاف حسین کے حکم پر کراچی کی سڑکیں بے گناہوں کے خون سے تر کی گئیں تو شیخ رشید بھی رات اسلام آباد میں جنرل مشرف کے ساتھ جلسہ عام میں فتح کا جشن منارہا تھا۔ جوش خطابت میں مسلسل مکے لہرا رہا تھا۔ لہٰذا سچ یہ ہے کہ یہ جلسہ عام ہر طرح سے کامیاب تھا۔ کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام ف اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی ہی یہاں کے میدانوں کو لوگوں سے بھرنے کی قدرت رکھتی ہیں۔ اسی میدان میں عمران خان نے 19مئی کو جلسہ کیا۔ اگرچہ لوگ شریک تھے، لیکن یہ تعداد کم تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شیخ رشید اس جلسہ پر بھی رائے دیتے۔ حسن ظن ہی میں کہتے کہ عمران خان بلوچستان کے نظم کی گوش مالی کریں اور اگلی بار گراؤنڈ لوگوں سے بھرنے کی تاکید و ہدایت کریں۔ بہر حال میاں نواز شریف اور محمود خان اچکزئی نے آمریت کے خلاف ثابت قدم رہنے کا عہد کیا۔ نواز شریف نے کہا کہ مائنس اور پلس کے کھیل کو اب ستر سال ہوگئے اور اب یہ کھیل ختم کرنا چاہیے۔ اب حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ ایسا فیصلہ کہ جسے پانچ بندے، کوئی آمر یا مارشل لا تبدیل نہ کرسکے۔ صرف عوام ہی جمہوری طریقے سے تبدیلی کے فیصلے کریں گے۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ہر آمریت نواز کے خلاف اور جمہوریت نواز کے ساتھ ہے۔ اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی جج عدلیہ کی آمریت نافذ کرنے کوشش کرے گا تو اس کے خلاف بھی اُٹھ کھڑے ہونا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ محمود خان اچکزئی نے ذکر افغانستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا بھی کیا خصوصاً افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہاں روز 40 کے قریب افغان آرمی اور پولیس کے اہلکار مررہے ہیں یعنی یہ سب کچھ پاکستان کی مداخلت کی وجہ سے ہورہا ہے۔ حالاں کہ افغانستان پاکستان میں تباہی اور دہشت گردی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ محمود خان کو ذکر ان افغان درماندہ عوام کا بھی کرنا چاہیے تھا جو روز امریکی و ناٹو اور افغان آرمی کی بمباری سے شہید ہورہے ہیں۔ افغانوں کے گھر طیاروں کی بمباری سے تباہ اور کھنڈر بن رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ امریکی، ناٹو طیارے ماہ اکتوبر سے اب تک ہزاروں بم افغانستان کے طول و عرض میں گراچکے ہیں۔ افغان مرد و زن اور بچے مرے ہیں۔ کیا اس کا کوئی حساب کسی نے قابض امریکا اور اس کی کٹھ پتلیوں سے مانگا ہے؟۔ امریکی اور افغان فورسز انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔ اب تو حامد کرزئی بھی افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انٹر نیشنل کرمنل کورٹ نے 2013 سے اب تک جنگی جرائم کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی سی سی نے اپنی 2016 کی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ان کے پاس افغان فورسز کی جانب سے ہونے والی پر تشدد کارروائیوں کے ثبوت موجود ہیں۔ پشتون خوا ملی عوامی پارٹی فخریہ کہتی ہے کہ عبدالصمد خان اچکزئی نے فرنگی سامراج کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ حیف، عبدالصمد خان اچکزئی کے جانشینوں نے افغانستان میں روسی سامراج کے لیے دیدہ و دلِ فرشِ راہ کیا، حامی و دست و بازو بنی۔ پھر امریکی سامراج کو خوش آمدید کہا۔ دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے تعاون کیا۔ عبدالصمد خان اچکزئی ہوتے تو شاید ایسا نہ کرتے۔ بہرکیف یہ جلسہ بلا مبالغہ بڑا تھا، جس کے شرکاء سے میاں نواز شریف نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ بھی لگوایا۔ اور محمود خان اچکزئی نے ’اپنی تقریر کے اختتام پر ’’جمہوری پاکستان‘‘ زندہ باد کا ذو معنی نعرہ لگوایا۔