تھر میں خاموشی کے ساتھ مثبت تبدیلیوں کی ایک بڑی لہر آرہی ہے، تھر کے صحرا میں واقع کوئلے کے وسیع ذخائر سے بجلی کی پیداوار کے بڑے منصوبے پر 110 میٹر کی کھدائی ہو چکی ہے اورصرف 35 میٹر کے بعد کوئلے کے ذخائر سے کو ئلہ نکالنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC) کی جا نب سے تھر کے عوام کی بہتری کے لیے تعلیم، صحت اوردیگر کئی شعبوں میں کام جاری ہے۔ ایک نجی تعلیمی ٹرسٹ کے تعاون سے ایک ہزار بچوں کے لیے چھ اسکول اور انڈس اسپتال کے تعاون سے کلینکس اور اسپتال قائم کیے جارہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے اشتراک سے شور زدہ پانی استعمال کرتے ہوئے جانوروں کے لیے غلہ اگانے کے پروجیکٹ پر تحقیقی کام جاری ہے۔ اس طرح تھر میں مویشیوں کی افزائش میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوگا۔ تھر کے بلاک IIمیں مائننگ اور پاور پلانٹ کی وجہ سے وہاں بسنے والے کئی خاندان جو نقل مکانی کر یں گے۔ ان سب خاندانوں کو ان سے حاصل کردہ زمین کے معاوضے دینے کے ساتھ ساتھ انہیں تقریباً 1200مربع گز پر ان کی طرز رہائش کے مطابق ہرشادی شدہ جوڑے کو مکانات بناکر دیے جائیں گے۔ اس وقت پروجیکٹ پر براہ راست اور بالواسطہ کام کرنے والوں کی تعداد تقریباً ساڑھے چار ہزار ہے۔ ان میں تھر کی خواتین بھی شامل ہیں۔
تھر کول پا ور پر وجیکٹ کی خا ص بات یہ ہے کہ تھر کے غریب عوام کو بھی حالات بدلنے کے عمل میں شریک کیا جارہا ہے۔ اس پروجیکٹ کی وجہ سے نقل مقانی کرنے والے تقریباٍ 700خاندانوں کو شیئر ہولڈر بنانے کا اعلان کیا گیاہے، یہ پاکستا ن میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ تھر کوئلے سے حا صل ہو نے والی بجلی کے نرخ ابتدا میں 17.4 جو 8سال کے اندر کم ہو کر08.2روپے فی یونٹ رہ جائیں گے، ریگولیٹر تھر کول انرجی بورڈ تھرکول کے نرخوں کا تعین کرے گا۔ یہ بات سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے شعبہ تعلقات عا مہ کے سر براہ محسن ببر نے تھر کول فیلڈ کے دو روزہ دورے کے دوران کراچی کے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہو ئے بتائی ۔اس موقع پر صحافیوں کو کوئلہ نکالنے کے لیے کان کنی اور پاور پلانٹ سائٹ کا تفصیلی دورہ کرایا گیا۔انھوں نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاور پلانٹ سے بجلی کی مین لائن تک تر سیل کے لیے26کلومیٹر لائن بچھانے کا کام بھی جاری ہے جس میں سے25کلو میٹر کا کام مکمل ہوگیا ہے جبکہ اسلام کوٹ سے مٹیاری تک 250کلو میڑ طویل ٹرانسمیشن لائن بچھانے کا آغاز ہوگیا ہے جبکہ پاور پلانٹ لگانے کی خواہش مند مختلف نجی کمپنیوں نے کان سے نکلنے والے کوئلے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کردی ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ ملکی تاریخ میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس پر 3ارب ڈالر لاگت آئے گی ، اس منصوبے کو سی پیک میں شامل کرلیا گیاہے ،
یہ منصوبہ ڈیڑھ سال قبل اپریل2016ئمیں شروع کیا گیا تھا جو تیزی سے اپنی تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے اور مقررہ وقت سے تین ماہ قبل جون 2019ء میں مکمل ہوجائے گا اور یہاں سے پیدا کی جانے والی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوگی اور متوقع طور پر فیصل آباد اور ملتان شہر کو فراہم کی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر کو 13بلاکس میں تقسیم کیا ہے جس میں 98 مربع کلو میٹر کا رقبہ ان کی کمپنی کو دیا گیا ہے جس میں1.57بلین ٹن کوئلہ موجود ہے جس کے ذریعے آئندہ پچاس برس تک5ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔انھوں نے کہا کہ ملک کی آبادی او ر بجلی کی پیدا وار میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ،اس وقت پانچ سے چھ ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال ہے اور آئندہ13برس میں بجلی کی طلب1لاکھ30ہزار میگا وٹ تک پہنچ جائے گی تاہم تھر میں زیر زمین175بلین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جوپا کستان کی ترقی اور توانائی کے شعبے کو مستحکم ترین بنانے کی ضمانت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ چین کے تعاون سے یہ منصوبہ شروع ہوگیا ہے جو پاکستان میں توانائی کے شعبے میں غیر معمولی تبدیلیاں آئیں گی، بجلی کی پید وار کے لیے تیل کی در آمد پر انحصار تقریباً ختم ہوجائے گا اور 50ارب ڈالر بچائے جاسکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ منصوبے میں تھر کے مقامی افراد کو بڑی تعداد میں میرٹ پر ملازمتیں فراہم کی گئیں ہیں ،تھر میں صورتحال بہتر ہوئی ہے اور رواں برس15لاکھ سیاح یہاں آئے جو انتہائی حوصلہ افزا ہے ۔کوئلے نکالنے کے لیے کان کنی سائٹ کے دورے پر انجینئرساگر کوٹھاری نے صحافیوں کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں 1.5مربع کلو میٹر رقبے پر کان کنی کا عمل جاری ہے اور110میٹر تک کھدائی کرلی گئی ہے ،120میٹرپر پہنچنے پر زیر زمین پانی نکالنے کا عمل شروع ہوگا جو 25کلو میٹر دورتعمیر کیے گئے ڈیم میں جائے گا اس کے لیے لائن بچھادی گئی ہے جبکہ کان کنی کے دوران نکلنے والے پانی کومقامی سطح پر زراعت کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے ۔انجینئرکا کہناتھا کہ کان کنی کے عمل میں 18 ایکسیویٹر کی مدد سے 24 گھنٹے کھدائی کا عمل جاری ہے، جبکہ 130 ڈمپرز نکلنے والی مٹی کو ڈمپنگ سائیڈز پر جمع کر رہے ہیں۔کول مائننگ کے لیے خصوصی ڈمپرز (ٹرک) استعمال ہوتے ہیں۔
، جس میں ایک کی مالیت 10 کروڑ روپے ہے، یہ ٹرک چلانے کے لیے مقامی افراد کو این ایل سی اور دیگر اداروں کے ذریعے تربیت دی گئی ہے، جبکہ مزید افراد کو تیار بھی کیا جا رہا ہے، صرف مرد ہی نہیں تھر کی خواتین بھی یہ ٹرک چلا رہی ہیں جبکہ دیگر خو اتین ڈمپرز (ٹرک) چلانا سیکھ رہی ہیں، تاکہ وہ روزگار کے مواقعوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اسلام کوٹ میں اینگر پاور جن کے زیر انتظام کول پاور پلانٹ کے دورے کے دوران پاور پلانٹ کنسٹرکشن منیجر ضیا شیخ نے صحا فیو ں کو بر یفنگ دیتے ہو ئے بتا یا کہ کوئلہ نکالنے کے لیے سندھ انرجی کول مائننگ کمپنی اور چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن کام کر رہی ہیں جبکہ پاور پلانٹ سے اینگر پاور جن تھر لمیٹڈ بجلی پیدا کرے گی ، پلانٹ کے لیے جدید مشینری امریکا ، یورپی ممالک اور چین سے در آمد کی گئی ہے، یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پاور پلانٹ ہے جس میں امپورٹیڈ کوئلہ بھی استعمال کیا جاسکے گا۔انھوں نے بتایا کہ کوئلے کے دھویں کے اخراج کے لیے بنائی گئی چمنی180فٹ ہے جو پاکستان کی بلند ترین چمنی ہے، بین الاقوامی معیار کے مطابق کول پاورپلانٹ کے لیے140فٹ چمنی ہونی چاہیے لیکن ہم نے اس منصوبے کو مکمل ماحول دوست بنانے کے لیے اس کی اونچائی 40فیصد اضافی رکھی ہے ضلع تھر پا رکر میں تھر کول پروجیکٹ کے ساتھ سا تھ سیاحت کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں، حال ہی میں سندھ ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے روپ کوہلی میں ریزورٹ بھی بنا دیا ہے، ساتھ ہی کنٹینرز ریسٹ ہاؤسز بھی تیزی سے بن رہے ہیں، یوں مقامی افراد جو کوئلے کے پروجیکٹ میں نوکری نہ پا سکیں، ان کے لیے دیگر کئی مواقع ہیں جس سے اپنے روزگار کا انتظام کر سکیں۔ تھر میں خوش حالی آنے کے بعد یہاں نہ صرف یہ کہ صنعت کاروں اور تاجروں کی آمدورفت بڑھے گی بلکہ صحرا کی سیاحت کے لیے آنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھے گی۔