اکبر الٰہ آبادی

1329

تیسری اور آخری قسط
اگر حقیقت پسندانہ دل و دماغ سے کام لے کر ایماندارنہ انداز فکر کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو اکبر کا یہ تفکر بے جا نہیں تھا کہ اس وقت کا نظام تعلیم مسلمانوں کی لیے سمِ قاتل سے کم نہیں۔ اس تعلیم سے ایسے انسان پیدا کیے جارہے تھے جو حصول تعلیم کے بعد یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ آخر کیابن گئے ہیں۔ کیا ان کا کوئی مذہب بھی ہے؟ کیا ان کی زندگی گزارنے کا کوئی حقیقی مقصد بھی ہے، کیا وہ ہندو مسلم سکھ عیسائی میں سے کچھ ہیں یا وہ اب کچھ بھی نہیں۔ان کی اقدار کیا ہیں، وہ کن روایات کے امین ہیں۔ آداب زندگی سے آشنا ہیں یا بیگانہ تہذیب و تمدن ہیں۔ ما سوا یہ کہ وہ انگریزی بہت اچھی بول سکتے ہیں اور حساب و کتاب میں بہت ماہر ہیں لیکن وہ اب خود کو کیا سمجھیں، یہ سمجھنے سے وہ سراسر قاصر اور بیگانۂ دین و مذہب ہیں۔ انگریزوں کو اپنے مددگار چاہیے تھے وہ انھوں نے تیار کر لیے تھے۔ اکبر اس پر شعری زبان میں کچھ یوں تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں کہ:

نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم سے کیا نسبت
میرے صیاد کی تعلیم کی ہے دھوم گلشن میں
یہاں جو آج پھنستا ہے، وہ کل صیاد ہوتا ہے

اگر میں غلط نہیں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم و جھجک نہیں کہ آج اور کل میں بہت بڑا فرق نہیں۔ آج کی تعلیم بھی اپنی تکمیل کے بعد ہمارے نوجوانوں کو اسی طرح حیران و پریشان چھوڑ جاتی ہے اور وہ اپنے تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے کے بعد اسی سوچ میں غلطان و پریشان نظر آتے ہیں کہ وہ کیا ہیں؟ اور اس کیا ہیں کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا۔ البتہ ایک فرق اکبر کے دور اور آج میں یہ ضرور ہے کہ آج کی تعلیم میں ’’ہنر‘‘ کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے صرف کلرک ہی پیدا نہیں ہوتے کچھ انسانوں کی خدمت کرنے والے اذہان بھی پیدا ہوتے ہیں۔اکبر بھی کچھ ایسا ہی نظام تعلیم چاہتے تھے کہ لوگ ایسا علم بھی حاصل کریں جو ان کو ہنر مند بھی بنا سکے اوروہ محض منشی بن کر نہ رہ جائیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھائو تجربے، اطرافِ دنیا میں سفر سیکھو
خواصِ خشک و تر سیکھو، علومِ بحر و بر سیکھو
خدا کے واسطے اے نوجوانو! ہوش میں آئو
دلوں میں اپنی غیرت کو جگہ دو، جوش میں آئو

اکبر ایک زیرک وکیل بھی تھے اور جج کے عہدے تک بھی جا پہنچے تھے لیکن وہ اس بات سے بھی اچھی طرح آشنا تھے کہ یہ تعلیم اور یہ پیشہ کسی بھی صورت میں نہ انسانی ہے اور نہ ہی اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ یہ عجیب نظام ہے جس میں ’’ملزم‘‘ خود اپنی صفائی نہ پیش کر سکے۔ ہر ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کی لیے لازم تھا کہ وہ کسی کو اپنی وکالت کی لیے کرائے پر حاصل کرے۔ الزام اس پر لیکن اس کی صفائیاں پیش کرنے والا کوئی اور ہو۔ پھر یہ کہ اگر اس کی صفائیاں دینے والا فنِ وکالت میں ماہر نہیں تو وہ بے قصور ہونے کے باوجود بھی لائق سزا ٹھہرے اور چرب زبان وکیل ایک مجرم کو بچانے میں کامیاب ہو جائے۔ اسی لیے وہ اس پیشہ کو شیطان کا پیشہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے

دین اسلام ایک سیدھا سادہ سے مذہب ہے۔ ہر قسم کی پیچیدگیوں سے پاک صاف۔ مغربی تعلیم میں ہر جگہ فلسفے اور پیچیدگیوں کا اتنا عمل دخل ہے کہ وہ معمولی سے معمولی معاملے کو الجھا کر رکھ دیتا ہے۔ جو ان پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتا ہے وہ عموماً راہ راست سے بھٹک جاتا ہے اور اس کی زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ وہ نہ تو ہر معاملے میں فلسفے کی مداخلت کے قائل تھے اور نہ ہی فلسفیانہ بحثوں میں الجھنے کے عادی۔ اس لیے کہ اس قسم کی بحثیں تضیع اوقات کے علاوہ اور کچھ نہیںہوتیں۔ فرماتے ہیں:

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
بحثیں فضول تھیں یہ کھلا حال دیر میں
افسوس عمر کٹ گئی لفظوں کے پھیر میں

یہی کچھ حال ہمارے ملک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا ہے، ہم جس سردارانہ، ملکانہ، خانانہ، چودھریانہ اور وڈیرانہ نظام سے عاجز ہیں، جب وہی عاجز ہم لوگ کسی قابلیت کی بنیاد پر کسی اچھے عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ہم اس نظام کے خاتمے کا سبب بنیں اور اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ ہم جس نظام کے ستائے ہوئے اور کچلے ہوئے ہیں اس کو دفنا کر ہی دم لیں گے، ان سارے سرداروں، خانوں، ملکوں اور چودھریوں سے بھی بڑے ظالم بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ 70 برس گزرجانے کے باوجود بھی ہم پر وہی پرانا نظام نافذ ہے جس کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کے دعوے ہم میں سے ہر ایک فرد اور سیاسی پارٹیاں کرتی نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم اور ہمارے ذہن غلامی و محکومی کی زنگ آلود زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ کمالات ،محکومی کی حالت میں ہمیں حاصل نہیں ہوسکتے۔ ایک تو اس لیے کہ ہمارے سب وسائل پر استعماری طاقتوں کا قبضہ ہے۔ دوسرے، ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور تخلیقی صلاحیتیں سوچکی ہیں۔ تیسرے، استعماری نظامِ تعلیم ہمارے پائوں کی زنجیر بن گیا ہے جو ہمیں تخلیق اور تجربے کی بجائے تقلید اور نقالی کی راہ پر لے جارہا ہے۔
اکبر تعلیم کی تبدیلی کو قتل کا مترادف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرعون نے تو موسیٰ کی پیدائش کے خوف سے ہزاروں بچوں کو قتل کیا اور بدنام ہوا، اگر وہ تعلیمی پالیسی تبدیل کرکے تمام نئے پیدا ہونے والوں کے ذہنوں کو اپنی تعلیم کے مکروفریب کے جال میں پھنسا دیتا تو فرعون پر قتل کا الزام بھی نہ آتا اور سلطنت کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا۔ ذہن کی تبدیلی قتل و غارت سے کہیں زیادہ موثر اور سفاک ہوتی ہے۔ اکبر اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

اکبر کے اشعار اتنی شگفتگی لیے ہوئے ہیں کہ انہیں پڑھتے جاؤ اور مسکراتے جاؤ۔ طنز، مزاح اور شائستگی کی ساری صفات کے حامل ہونے کے باوجود ان کے ہر شعر میں اصلاح کے سارے پہلو موجود ہیں اور کوئی ایک شعر بھی محض شعر نہیں ہے بلکہ اس میں اصلاح احوال کی پوری پوری داستانیں پوشیدہ ہیں۔ مضمون طوالت ضرور اختیار کر گیا ہے لیکن ان چند الفاظ کو سطروں میں پرونے کے بعد اگر ان کے کچھ اشعار زیب قلم وقرطاس نہ کیے جائیں تو بڑی زیادتی کی بات ہوگی اس لیے زحمت تو اٹھانا پڑے گی لیکن یہ زحمت بھی ذہن میں شگفتگی و شادابی کی نہ جانے کتنی کلیوں کی چٹک بن جائے گی۔ ملاحظہ کیجیے:

باہم شبِ وصال غلط فہمیاں ہوئیں
مجھ کو پری کا شبہہ ہوا ان کو بھوت کا
پکا لیں پیس کر دو روٹیاں تھوڑے سے جو لانا
ہماری کیا ہے اے بھائی نہ مسٹر ہیں نہ مولانا
ہو گیا ’’فیل‘‘ امتحانوں میں
اب ارادہ ہے بدمعاشی کا
جب کہتا ہوں مرتا ہوں مری جان میں تم پر
فرماتے ہیں مرتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے
شکم سے حضرتِ انسان نجات پا نہ سکے
اب اپنے پیٹ میں ہیں پہلے ماں کے پیٹ میں تھے
انھیں شوقِ عبادت بھی ہے اور گانے کی عادت بھی
نکلتی ہیں دعائیں ان کے منہ سے ٹھمریاں ہو کر

(نوٹ:۔بیشتر اشعارکے انتخاب کی لیے ڈاکٹر مشاہد رضوی کے مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے)