سجدہ تعظیمی اور سجدہ تحیّت

1097

پروفیسر عنایت علی خان

18 نومبر کے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں مفتی صاحب نے سجدہ تعظیمی کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ: ’’بعض لوگ‘ سجدہ تعظیمی‘‘ کے حوالے سے فرشتوں کے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے اور سیدنا یوسف علیہ السلام کے والدین کریمین اور برادران کے انہیں سجدہ کرنے کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ گزشتہ شریعتوں کی جو بات ہماری شریعت کے خلاف ہو اُسے ہم اختیار نہیں کریں گے۔ ہمارے نزدیک سجدہ تحیّت سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا یوسف علیہ السلام کے ساتھ خاص تھا۔
آگے چل کر مفتی صاحب مدظلہ العالیٰ نے دیگر مفسرین اور اکابر اُمت کی آرا کا اس ضمن میں جائزہ لیا ہے لیکن میری معروضات اسی ایک امر پر مرکوز رہیں گی کہ گزشتہ شریعتوں کی جو بات ہماری شریعت کے خلاف ہو اُسے ہم اختیار نہیں کریں گے۔
جہاں تک گزشتہ شریعتوں کی وہ باتیں جو ہماری شریعت کے خلاف ہوں انہیں ہم اختیار نہیں کریں گے کا تعلق ہے اس سے تو کسی ادنیٰ علم دین رکھنے والے کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن چوں کہ دین اسلام کی بعض اساسی باتیں سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر ہماری شریعت میں بغیر کسی تبدیلی کے متواتر موجود رہی ہیں۔ اُن میں سجدے کا اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہونا بھی شامل ہے۔ اس لیے اسے کسی نبی کی شریعت میں جائز قرار دینے کے مسئلے پر تحقیق کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں ہمیں اس دور کے عظیم محقق دین سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ کی تحقیق سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ موصوف نے سورہ یوسف میں ان کے والدین اور برادران کے ’’سجدے‘‘ سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے۔ حاشیہ نمبر ۷۰:۔ ’’اس لفظ سجدے سے بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ ایک گروہ نے تو اس سے استدلال کرتے ہوئے بادشاہوں اور پیروں کے لیے سجدہ تحیّت اور سجدہ تعظیمی کا جواز نکال لیا۔ دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے اس کی یہ توجیہہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں ’’سجدہ عبادت‘‘ غیر اللہ کے لیے حرام تھا باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبے سے خالی ہو تو وہ خدا کے علاوہ دوسروں کو بھی کیا جاسکتا تھا۔ البتہ شریعت محمدیؐ میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کردیا گیا ہے۔ لیکن ساری غلط فہمی دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ لفظ سجدہ کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا یعنی ہاتھ گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا، حالاں کہ سجدے کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں‘‘ اور یہاں (سورہ یوسف) میں اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ قدیم تہذیب میں یہ عام طریقہ تھا (اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے) کہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کس حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے۔ اسی جھکاؤ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں bow کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بائبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم کو ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ طریقہ آداب تہذیب میں شامل تھا۔ چناں چہ سیدنا ابراہیمؑ کے مطابق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمے کی طرف تین آدمیوں کو آتے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے۔ عربی بائبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں ’’فلما نظر لاستقبالھم من باب الخیمۃ و سجد الی الارض۔ اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جو اب اسلامی اصطلاح کے لفظ سجدہ سے سمجھا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے معاملے کی اس حقیقت کو جانے بغیر اس کی تاویل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غیر اللہ کو تعظیمی سجدہ کرنا یا تحیّت بجا لانا جائز تھا، انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے۔ اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے تو وہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں رہا ہے بائبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب ’’اخویرس‘‘ بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامرا بنایا اور حکم دیا کہ سب لوگ اس کو سجدہ تعظیمی بجا لایا کریں تو ’’مردکی‘‘ نے، جو بنی اسرائیل کے اولیا میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا (آیت:۱۔۲) تلمود میں اس واقعے کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے۔
بادشاہ کے ملازموں نے کہا کہ آخر تو کیوں ’’ہامان‘‘ کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے؟ ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو کیا ایک ظالم انسان جو کل خاک میں مل جانے والا ہے، اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے؟ کیا میں اس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا بچہ تھا آج جوان ہے، کل بوڑھا ہوگا اور پرسوں مر جائے گا؟ نہیں، میں تو اس ازلی وابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی القیوم ہے۔ وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاؤں گا، اور کسی کی نہیں۔ یہ تقریر نزول قرآن سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی سجدہ کرنا جائز ہے۔