گزشتہ جمعہ کو ایم کیو ایم پاکستان نے حیدر آباد میں ایک بڑا جلسہ کیا اور اس سے خطاب کرنے والوں نے ایم کیو ایم کے دیگر دھڑوں کو مسترد کردیا۔ جلسے سے پہلے حیدر آباد میں بظاہر ’’ عوام‘‘ کی طرف سے جو بینرز لگائے گئے تھے ان پر لکھا ہوا تھا کہ جلسوں پر رقم لگانے کے بجائے شہر میں صفائی ستھرائی پر توجہ دی جائے جو زیادہ اہم ہے۔ تاہم حیدر آباد کے میئر نے میئر کراچی وسیم اختر کا موقف دوہرایا کہ ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں ہیں ۔ یہی بات وسیم اختر کہتے چلے آرہے ہیں ۔ اتنی بے بسی اور لاچاری ہے تو میئر کا منصب چھوڑ کر گھر بیٹھیں۔ میئر حیدر آباد کی تہی دستی پر وزیر بلدیات سندھ کا کہنا ہے کہ بلدیہ حیدر آباد کو ہر ماہ تین کروڑ روپے دیے جاتے ہیں، وہ کہاں جاتے ہیں؟ اس کا حساب تو کبھی وسیم اختر بھی نہیں دے سکے۔ تاہم اس جلسے کی وجہ سے اکبری گراؤنڈ کے اطراف کے دن پھر گئے اور کچھ حصہ صاف ہوگیا لیکن شہر جوں کا توں کچرے کا ڈھیر بنا ہوا اور کراچی کا مقابلہ کررہا ہے۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر نے اپنے پرانے رفیق کار مصطفی کمال کا نام لیے بغیر تنقید کی کہ انہیں کچا ہی توڑ لیا گیا ان کے پکنے کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن کچا توڑنے کا یہ سلسلہ تو بہت پہلے سے جاری ہے اور جو خوب پک جاتا ہے وہ الطاف حسین بن جاتا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ یہ جو مختلف دھڑے ہیں، یہ ایم کیو ایم لندن کی چائناکٹنگ ہے۔ سابق میئر سے زیادہ چائنا کٹنگ کے بارے میں کون جانتا ہوگا۔ لیکن کیا پاک سرزمین پارٹی بھی اسی زمرے میں نہیں آتی۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ خواہ کتنے دھڑے بن جائیں، ووٹ بینک ہمارا ہے اور مردم شماری ٹھیک ہو تو 2018ء میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہم ہوں گے۔ انہوں نے سندھ کی تقسیم کے مطالبے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے۔ اس مطالبے پر سندھی قوم پرست عموماً بپھر جاتے ہیں حالاں کہ خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبے اور پنجاب میں صوبہ بہاولپور کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ اس سے اگلے دن ہفتے کو ایم کیو ایم لندن نے بھی اپنی زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے عزیز آباد میں شہداء کے لیے فاتحہ خوانی کے لیے اپنے نام لیواؤں کو ترغیب دی۔ اس پر کئی خواتین اور مرد پہنچنا شروع ہوگئے۔ لیکن یہ سب ایک غدار وطن اور بھارتی ایجنٹ الطاف حسین کے پیروکار ہیں چنانچہ غداروں کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل ہونا چاہیے ۔ شہداء کی قبروں پر جا کر فاتحہ پڑھنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن یہ لوگ الطاف حسین سے وابستگی کا ثبوت دینے کے لیے نکلے تھے جس کی پاکستان دشمنی اب ڈھکی چھپی نہیں۔ تاہم اس موقع پر پولیس کے ردعمل نے غداری کے اس عمل کو بڑی خبر بنا دیا۔ عائشہ منزل سے لیاقت علی خان چوک تک جانے والی سڑک اس طرح بند کی کہ لوگ اپنے کام سے پیدل بھی نہیں جاسکے اور ہر راہ گیر کی پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ عائشہ منزل پر ایک اسپتال بھی ہے جہاں مریضوں کو بھی نہیں جانے دیا گیا۔ خواتین کو دھکے دے کر گاڑیوں میں ڈالا گیا، لاٹھی چارج بھی ہوا۔ ایسے ردعمل کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن انتظامیہ کو بھی بڑی خبر بنوانے کا شوق ہوتا ہے۔ اس سے قطع نظر محبان وطن اور خاص طور پر ایم کیو ایم کے چھوٹے بڑے دھڑوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا اب بھی ایک اعلانیہ بھارتی ایجنٹ کے چاہنے والے موجود ہیں۔ خود عام شہریوں اور سول سوسائٹی کو غداروں کے ساتھیوں کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ ٹی وی چینلز پر ان کی شکلیں نمایاں ہیں ۔