صبا اکبر آبادی‘ ہمہ جہت تخلیقی شخصیت

418

خالد معین
قیام ِ پاکستان کے بعد کراچی میں ہجرت گزاروں کی جو رنگا رنگ ادبی انجمن سجی، وہ نہ صرف قابل ِ رشک تھی، بلکہ اس انجمن نے شعرو ادب کے نئے معیارات بھی قائم کیے۔ اس انجمن کی ایک منفرد اور ہمہ جہت تخلیقی شخصیت صبا اکبر آبادی کے نام سے معروف ہے۔ صبا صاحب ہجرت کے بعد پہلے کچھ عرصے حیدرآباد، سندھ میں مقیم رہے اور اس کے بعد اُنہوں نے کراچی کو اپنا مستقر بنایا، پھر وہ زندگی بھر یہیں رہے۔ صبا صاحب کی شاعری اور صحافت کا آغاز تو ہندوستان کے مردم خیز شہر آگرہ سے ہوگیا تھا، جہاں وہ14 اگست 1908ء کو پیدا ہوئے۔ اُن کا نام خواجہ محمد امیر رکھا گیا، تاہم وہ آگے چل کر اپنے ادبی نام اور تخلص صبا اکبر آبادی کے نام سے معروف ہوئے۔ بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک نوعمر صبا نے شاعری کا آغاز کیا توجلد ہی اپنی شاعرانہ چمک دمک سے اساتذہ کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ یہ1918 ء کی بات ہے اور صبا صاحب کا کلام 1920ء سے ہندوستان کے معتبر ادبی جرائد کی زینت بننا شروع ہوگیا تھا۔1928 ء میں اُنہوں نے آگرہ ہی سے اپنا ادبی جریدہ ’آزاد‘ نکالا اور کچھ عرصے کے بعد رعنا اکبر آبادی کے معروف جریدے ’مشورہ‘ کی ادارت بھی سنبھال لی۔ غالب، میر اور نظیر اکبر آبادی کا تعلق بھی اگرچہ صبا صاحب کی جنم بھومی آگرہ سے ہے، تاہم اُن کا ذہنی، دلی، فکری اور تخلیقی رشتہ غالب کے ساتھ رہا، اور یہ رشتہ آخری سانس تک استوار رہا۔ غالب کے عشق میں اُنہوں نے دیوان ِ غالب کی مکمل تضمین 1938ء ہی میں مکمل کرلی تھی، تاہم یہ اہم تضمین ابھی تک کتابی صورت میں سامنے نہیں آسکی۔
صبا اکبر آبادی نے جونس کالج آگرہ میں تعلیم حاصل کی، جہاں وہ مشہور شاعر مجاز کے کلاس فیلو رہے، جب کہ آگرہ میں اُن کی ملاقاتیں جذبی سے بھی رہیں۔ صبا صاحب پاکستان آنے سے قبل آگرہ کے ادبی ماحول میں اپنا نام اور مقام بنا چکے تھے۔ اسی لیے پاکستان آتے ہی جلد یہاں کی اہم علمی و ادبی شخصیات کے ساتھ اُن کی رسم و راہ پیدا ہوگئی۔ صبا صاحب فکر و فن میں ڈوبے ہوئے ایک درویش منش تخلیق کار تھے، ظاہری نام و نمود سے اُنہیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ مشاعرے بازی اور شاعرانہ سیاستوں سے بھی وہ شعوری طور پر دور رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنے سنجیدہ تخلیقی کاموں پر صرف کرسکیں، اور یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ یوں بھی وہ ہمہ وجود خالص شعرو ادب کی نئی منزلوں کے مسافر اور روایت کے پاس دار تھے۔ اُن کی شخصیت میں ایک عجب طرح کی مقناطیسی کشش تھی۔ جو اُن سے ایک بار مل لیتا، بار بار اُن سے ملنے کا اشتیاق رکھتا۔ تاہم وہ اپنی گہری شخصی انفرادیت اور سنجیدہ تخلیقی روش کے باعث محفل آرائی کے بجائے مخصوص احباب کے دائرے میں رہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔
صبا اکبر آبادی کی پہلی کتاب ’ذکر و فکر‘ تھی جو حمد و نعت اور سلام پر مبنی تھی، اور1938ء میں آگرہ سے شایع ہوئی۔ جب کہ دوسری کتاب ’زمزمۂ پاکستان‘ تھی جو 1946ء میں شایع ہوئی، یہ کتاب ملّی نغمات پر مبنی تھی۔ پاکستان میں صبا صاحب کا جو پہلا مجموعہ شایع ہوا، اُس کا نام ’اوراق ِ گُل‘ تھا اور وہ 1970ء میں سامنے آیا۔ اسی طرح اُن کا آخری مجموعۂ غزل ’میرے حصے کی روشنی‘ کے نام سے سامنے آیا۔ جب کہ اُن کے دیگر شعری مجموعوں میں سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغ ِ بہار، حرزِ جاں، ثبات اوردست ِ دعا شامل ہیں۔ صبا صاحب اپنے مخصوص تخلیقی مزاج کے سبب عوامی سطح کے مشاعروں میں شرکت سے عام طور پر گزیراں رہے۔ البتہ مختصر نشستوں اور مخصوص طرحی مشاعروں میں شوق سے شرکت کرتے تھے۔ اسی طرح کسی بہاریہ مشاعرے میں جاتے تو تازہ غزل کہہ کے جاتے۔ وہ روایت کے دل دادہ رہے اور انہوں نے عہد ِ حاضر کے بدلتے ہوئے مزاج پر بھی استادانہ نگاہ رکھی۔ غزل تو خیر اُن کی محرم راز رہی اور وہ غزل کے محرم راز رہے۔ غزل کا عشق صبا صاحب کے تخلیقی مزاج کے قریب بھی تھا۔ وہ غزل کی ایمائیت، رمزیت، کفایت اور تخلیقی بہائو کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ رہے۔ غزل سے اُن کا رشتہ ایک جانب روایت سے گہرے جڑائو کا آئینہ دار تھا تو دوسری طرف غزل کے بدلتے ہوئے نئے تخلیقی مزاج سے اُن کی گہری انسیت کی خبر بھی دیتا تھا۔ اُنہوں نے غزل میں صحت مندانہ روایات کی پیروی کی ہے اور محض گُل و بلبل کے قصے نہیں سنائے بلکہ غزل کو حیات و کائنات سے ہم رشتہ رکھتے ہوئے، اسے حیاتِ کُل اور کائنات ِ کُل کی معنویت کے ساتھ جوڑنے کی سعی بھی کی ہے۔ اس طرح صبا صاحب کی غزل میں فکری کشادگی کے ساتھ اعلیٰ ترین انسانی اوصاف اور دل و دماغ کے درمیان رہنے والی ہمہ وقتی کشمکش کی جھلک بھی اپنے مخصوص آہنگ اور خوش ادائی کے ساتھ نمایاں ہے۔ صبا صاحب کے فکر و فن پر عہد ِ حاضر کی نمایاں ترین شخصیات نے اظہار ِ رائے کیا ہے، اور تمام اہم تخلیقی شخصیات نے اُن کی ہمہ جہت تخلیقی شخصیت کو بھرپور خراج ِ تحسین بھی پیش کیا ہے، ان شخصیات میں مجنوں گورکھ پوری، ممتاز حسین، کرار حسین، جمیل جالبی اور مشفق خواجہ وغیرہ شامل ہیں۔
غزل کے علاوہ صبا اکبر آبادی کی تخلیقی کائنات میں نعت نگاری، نوحے، سلام اور مرثیہ نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ تخلیقی روش اور یہ رنگ ِعقیدت ابتدا سے اُن کے ساتھ رہا، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید نشوونما پاتا رہا، نت نئے تخلیقی دائرے بناتا رہا۔ یہ صرف شخصی عقیدت کا معاملہ نہیں تھا بلکہ صبا صاحب نے اس میں اپنے سچے عشق کے رنگ کچھ اس انداز سے بھرے ہیں کہ انفرادی دائرہ عصر ِ حاضر کے اجتماعی دائرے میں سمٹ گیا ہے۔ پھر اس عشق میں کمی نہیں دیکھی گئی بلکہ یہ عشق تسلسل کے ساتھ نت نئے زاویوں کے حصار کھینچتا دکھائی دیتا ہے۔ یوں رثائی ادب میں صبا صاحب کا نام اتنا نمایاں ہوا کہ وہ رثائی ادب کے خاص نمایندے کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ صبا صاحب نے72 مرثیے کہے۔ اس حوالے سے مرثیے کی جو کتابیں اب تک منظر ِ عام پر آئیں، اُن میں ’سربکف‘ ، ’شہادت‘، ’خوں ناب‘ اور’قرطاس‘ شامل ہیں۔ صبا صاحب نے غم ِ روزگار کے حوالے سے مختلف النوع ملازمتیں کیں، جن میں وہ مادر ِ ملت فاطمہ جناح کے ایک سال تک پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے۔ اُنہوں نے گہرے تخلیقی استغراق کے باوجود اپنی ازدواجی زندگی، بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت اور نجی زندگی میں بھرپور توازن قائم رکھا۔ اس حوالے سے انہیں ایک مثالی شخصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
غالب سے جو فکری عقیدت صبا اکبر آبادی کو رہی، وہ اُن کی تمام تخلیقی شخصیت میں نئے نئے تعمیری رنگ بکھیرتی رہی۔ انہوں نے غالب کی تمام فارسی رباعیات کو ’ہم کلام‘ کے نام سے1981 ء میں اردو میں ڈھالا۔ اسی طرح خیام کی فارسی رباعیات کا منظوم اردو ترجمہ ’زرفشاں‘ کے نام سے کیا۔ یہ دونوں کتابیں اردو ادب میں ایک جداگانہ اہمیت رکھتی ہیں اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ غالب جیسی منفرد ترین اور پیچیدہ تخلیقی شخصیت کی فارسی رباعیات کو اردو کے قالب میں منظوم انداز میں ڈھالنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اور اس کی داد بھی کوئی کم نظر نہیں دے سکتا۔ اس کے لیے ایک قدآور نقاد مجنوں گھورکھ پوری سے رجوع کرتے ہیں، جنہوں نے ’ہم کلام‘ کا پُرمغز دیباچہ تحریر کرتے ہوئے کھل کے صبا اکبر آبادی کی تعریف کی اور انہیں اس کارنامے پر اُس دادو تحسین سے نوازا، جو اُن کا حق تھا۔ انہوں نے اپنے دیباچے کا اختتام ان الفاظ میںکیا کہ اگر غالب بھی اپنی فارسی رباعیات کو اردو کے قالب میں ڈھالتے تو اسی طرح ڈھالتے، جیسے صبا صاحب نے ڈھالا ہے۔ اسی طرح صبا صاحب نے رباعیات کے بادشاہ خیام کی شہرۂ آفاق فارسی رباعیات کا منظوم اردو ترجمہ پیش کرکے اپنی غیر معمولی قادرالکلامی کا ثبوت بھی دیا۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ صبا صاحب نے، جس صنف میں قدم رکھا، وہاں فکر و خیال کی نئی جوت جگائی۔ غزل اور رثائی ادب کے علاوہ رباعیات اور دیگر اصناف میں اُن کا تمام کام اہمیت کا حامل ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کا تمام تخلیقی کام جلد ازجلد اشاعت کے مراحل سے گزر کے خواص و عوام تک پہنچایا جائے۔ شاعری کے علاوہ صبا صاحب نے ایک ناول ’زندہ لاش‘ بھی تحریر کیا، تاہم اس کے بعد مزید کوئی ناول نہیں لکھا۔ معروف افسانہ نگار سلطان جمیل نسیم اور معروف میڈیا پرسن اور شاعر تاج دار عادل اُن کے صاحب زادے ہیں۔ صبا اکبر آبادی مشرقی شعرو ادب کی ایسی بلند پایہ شخصیت ہیں، جو زندگی بھر سوچتے رہے، پڑھتے رہے، دیکھتے رہے، لکھتے رہے اور اپنے لکھے ہوئے ٖحروف کو روشنی بخشتے رہے۔ اسی لیے وہ بیسویں صدی کے اہم ترین تخلیق کاروں کی فہرست میں نمایاں بھی ہیں۔ وہ 29 اکتوبر 1991ء کو کراچی میں جہان ِ فانی سے رخصت ہوئے اور کراچی ہی کے سخی حسن قبرستان میںآسودۂ خاک ہیں۔