پنجاب میں تیزی سے سکڑتی ہوئی پیپلزپارٹی نے پریڈ گراونڈ اسلام آباد میں اپنی طاقت کا کامیاب مظاہرہ کرکے سیاسی کروٹ لی ہے۔ طویل خوابیدگی سے مکمل بیداری تک ابھی اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں اور لغزشیں حائل ہیں۔ ملک کے کئی علاقوں سے پارٹی کے قدم اُکھڑنے کے باوجود پارٹی سندھ کے بعد ملک کے شمالی حصے میں اپنی قوت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پارٹی کی حکومت نہ ہونے کے باوجود متبادل کے طور پر یہی جماعت موجود ہے۔ آزادکشمیر سے ملحق ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی کسی بھی سیاسی سرگرمی کے لیے یہ علاقے بڑی سیاسی کمک اور مدد کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں کی کئی بڑی برداریوں جاٹ، گوجر، مغل اور سدھن میں مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کو مضبوط قیادت بھی میسر ہے اور نتیجے کے طور پر اثر رسوخ بھی حاصل ہے۔ یہ جلسہ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل تھا۔ اس جلسے سے یہ اندازہ ہونا تھا کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنی سیاست کے احیاء میں دلچسپی رکھتی ہے یا نہیں؟۔ بہت عرصے سے پیپلزپارٹی کے پاؤں پنجاب کی زمین سے اُکھڑے ہوئے ہیں۔ وہی پنجاب جہاں اس جماعت کا سیاسی جنم ہوا اور جہاں سے اس جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خیمے کو چھوڑ کر آزاد عوامی فضاؤں میں اُڑان بھرنے کا آغاز کیا تھا۔ پنجاب پیپلزپارٹی کے لیے سیاسی اعتبار سے اجنبی بن کر رہ گیا ہے۔ پارٹی نے ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ کوئی نادیدہ طاقت نہیں چاہتی کہ وہ پنجاب میں سرگرمیاں جاری رکھے جب کہ حقیقت یہ ہے پیپلز پارٹی نے شریف خاندان کی سیاست کے آگے بہت جلد ہی سپر ڈال دی تھی اور یوں پنجاب کی زمین پارٹی کے لیے تنگ ہوتی چلی گئی۔ اس جلسے سے یہ اندازہ بھی ہونا تھا کہ آصف زرداری حقیقی طور پر پارٹی کی فرنٹ سیٹ بلاول زرداری کے لیے خالی کرنے پر آماد ہیں یا وہ ابھی تک انہیں سیاسی نابالغ ہی سمجھ رہے ہیں۔
کچھ عرصے سے ملک میں مائنس اور پلس کی جو سیاست چل رہی تھی انہی میں ایک فارمولہ پیپلزپارٹی مائنس آصف زرداری بھی تھا۔ آصف زرداری کو مائنس کرنا تو شاید مشکل نہ تھا مگر انہیں مائنس کرکے اعتزاز احسن، نیر بخاری، خورشید شاہ کو قیادت کے منصب پر بٹھانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ مائنس آصف زرداری کی اس رسم کو باوقار اور کامیاب بنانے کا واحد اور آسان راستہ بلاول پلس کرنا تھا۔ بلاول زرداری جوان اور تازہ دم ہیں اور ان داغوں سے آزاد ہیں جن کے باعث بہت سے دامن پہچانے بھی نہیں جارہے۔ ایم کیو ایم کے بانی کو للکارنے کی بنا پر آصف زرداری نے بلاول کو بچہ کہہ کر منظر سے ہٹا دیا تھا۔ انہیں بلاول کے انکل اور اتالیق بھی پسند نہیں تھے۔ آصف زرداری کے سایے سے آزاد ہوئے بغیر بلاول کے لیے قومی سیاست میں قابل ذکر مقام بنانا ممکن نہ تھا۔ اسلام آباد کے جلسے میں بلاول نے سنجیدہ رہ کر اور آصف زردای نے موج مستی کر کے بتادیا کہ دونوں کے دائرے اب الگ ہیں اور آصف زردای دل بہلانے کو ڈھارس بندھانے کو موجود تو رہیں گے مگر بلاول اپنی پالیسی بنانے میں آزاد ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس سے پارٹی کی سیاست کے آئندہ رخ کا اندازہ ہونا تھا۔ پیپلزپارٹی اب بھی میثاق جمہوریت کی ڈور میں بندھی یا اس کچے دھاگے کے بندھن کو توڑ کر کسی نئی راہ پر چل پڑی ہے۔ جلسے سے بڑی حد تک ان سوالوں کے جواب مل گئے ہیں۔ اس جلسے میں آصف علی زرداری کی ہمشیرہ مسز فریال تالپورجو پارٹی میں ان کا سایہ سمجھی جاتی ہیں پس منظر میں رہیں۔ آصف زردای نے بلاول سے پہلے خطاب کرکے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ بلاول کی سیاست کو راہ دینے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ موج مستی کرکے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دیا کہ اب وہ اینٹ سے اینٹ بجانے والے زداری نہیں بلکہ ایک بے ضرر انسان بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن اسٹیج سے نیچے جو کرسکتے ہیں پیپلزپارٹی کے نمبر ون اسٹیج پر اس سے زیادہ بہتر پرفارمنس کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ تجدید تعلقات کے مشتاق میاں محمد نواز شریف کے لیے ان کا جواب ٹکا سا تھا کہ اب کی بار ان کی جمہوریت بجائے اپنی جمہوریت لائیں گے۔ یوں انہوں نے میاں نواز شریف کا ہاتھ جھٹک کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رسم وراہ نبھانے کا واضح اعلان کر دیا۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے یہاں مرضی کا اسلام، مرضی کا انصاف، مرضی کا احتساب اور مرضی کی جمہوریت رائج رہی ہیں۔ جس جمہوریت میں کسی کا بھلا وہی جمہوریت بہترین اور آئیڈیل رہی ہے جس جمہوریت میں کسی دوسرے یا سیاسی حریف کا اقبال بلند ہو وہ گوراہ نہیں ہوتی۔ اس طرح ملک میں اچھی اور بری جمہوریت، تیری اور میری جمہوریت کے پیمانے مروج اور مستعمل رہے ہیں حالاں کہ جمہوریت کسی فرد اور سیاسی جماعت کی نہیں ہوتی بلکہ ایک عوامی نمائندگی کے ایک شفاف نظام کا نام ہے۔ ہم نے جمہوریت کو خانوں میں بانٹ کر کمزور اور بے وقعت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آصف زرداری کی بات کو سچ مانیں تو اس وقت ملک میں میاں نواز شریف کی جمہوریت ہے۔ اس سے پہلے ملک میں آصف علی زرداری کی جمہوریت تھی اور آئندہ عمران خان اپنی جمہوریت لانے کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان تصورات سے جمہوریت کا حقیقی چہرہ گہن زدہ ہوجاتا ہے۔ جمہوریت ایک ہے اور ایک ہی ہونی چاہیے۔ اس پر کسی فرد اور جماعت کی چھاپ نہیں ہونی چاہیے۔ جس دن پاکستان کے سیاست دانوں کو جمہوریت کو ’’تیری اور میری‘‘ کے خانوں کے بانٹنے کے بجائے ’’ہم سب کی جمہوریت‘‘ مان لیا ملک میں جمہوریت ہر قسم کے خطرات سے آزاد ہو جائے گی۔