مشروط واپسی

432

پچاس سال کے ایک طویل ترین عرصے کے بعد پیپلزپارٹی اسلام آباد میں سیاسی شو کرنے میں کامیاب رہی‘ جی ہاں‘ ایک طویل عرصے کے بعد۔ پیپلزپارٹی کی اپنی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے، آزاد کشمیر اور گلگت میں جلسے کرتی رہی ہے‘ جس سے بھٹو صاحب نے بھی خطاب کیا‘ ان کے بعد بے نظیر بھٹو نے بھی بڑے جلسے کیے لیکن اسلام آباد میں وہ احتجاج تو کرتی رہی ہیں لیکن کوئی بڑا جلسہ نہیں کیا‘ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کا یہ پہلا جلسہ تھا جہاں بلاول زرداری کی لانچنگ کی گئی انہیں امام ضامن باندھ کر میدانِ سیاست میں اُتارا گیا ہے۔ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے اس جلسے پر پانی کی طرح سرمایہ بہایا گیا بھٹو صاحب نے اپنے انقلابی ساتھیوں‘ شیخ رشید جیسے مزدور رہنماء‘ ماہر معیشت ڈاکٹر مبشر حسن‘ ماہر سماجیات جے اے رحیم‘ دانش ور معراج محمد خان‘ اور تاج محمد لنگا جیسے سیاسی کارکن کے ساتھ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی یہ وہ وقت تھا جب ایوب خان کا دور زوال پزیر تھا اور بھٹو گھر کے بھیدی کی حیثیت سے انہیں سیاسی چیلنج دینے اور ان کی لنکا ڈھانے نکلے تھے۔ بھٹو نے جمہوریت لانے کے لیے ایوب خان کو چیلنج دیا آج پچاس سال کے بعد ملک کے حالات ایک بار پھر سیاسی بحران کا شکار ہیں لیکن اس بار پیپلزپارٹی کی قیادت نے پچاس سالہ جشن کے موقع پر اپنے جلسے میں جمہوری قوتوں کو آنکھیں دکھائی ہیں اور پاکستان کے عوام کو آئندہ پیش آنے والے عالمی سیاسی حالات‘ ملکی مسائل کا حل پیش کرنے سے گریز کیا یا پارٹی قیادت نے اپنی سیاسی تاریخ کے اس اہم ترین جلسے کے لیے ان موضوعات پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا‘ لیکن سیاسی کارکن کہتا ہے اور یہ گلی محلے کی چوپالوں پر بیٹھنے والے کارکن کی رائے ہے کہ پارٹی کا کوئی ویژن ہی نہیں تھا لہٰذا پیش کیا کرتی‘ بہر حال جلسے میں آصف علی زرداری کے ڈانس کی خوب دھوم مچی ہوئی ہے لیکن پارٹی کچھ کچھ دفاعی پوزیشن بھی لے رہی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے اگرچہ بلاول زرداری کو قیادت سونپی ہوئی ہے لیکن پارٹی کی لگام ابھی بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے اور وہ آج کل نواز شریف کو اپنا سیاسی حریف سمجھ کر اسٹیبلشمنٹ کے حلیف بنے ہوئے ہیں اور جمہوریت بچانے کی بات کرتے ہیں۔ آصف علی زرداری حالات کے مطابق پلٹا کھاتے ہیں۔
دو ہزار سات کے انتخابات میں جب قاف لیگ کنگ پارٹی تھی تو اس وقت حکومت بنانے میں مشکل پیش آرہی تھی جنرل مشرف کے مشیروں نے رات کی تاریکی میں اسلام آباد کے ایک مقامی ہسپتال میں آصف علی زرداری سے رابطہ کیا کہ بی بی کو منائیں کہ وہ قاف لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لیے پارٹی کی قیادت کو اجازت دیں آصف علی زرداری نے کہا کہ بھائی ان کے پاس فون ہے نہ کوئی ذریعہ‘ جس پر انہیں پچاس ہزار روپے کے ’’ایزی لوڈ‘‘ کے ساتھ ایک فون کی سہولت مہیا کی گئی یہ سلسلہ کوئی ہفتہ دس دن چلتا رہا‘ بی بی سے رابطہ تو نہ ہوا البتہ ہسپتال میں آصف علی زرداری کے لیے سہولتوں کے ڈھیر لگ گئے ایک روز زرداری صاحب نے جواب دے دیا کہ بی بی نہیں مان رہیں تو ان کے حتمی انکار کے بعد پیپلز پارٹی کے بطن سے پیٹریاٹ نے جنم لیا‘ راؤ سکندر‘ فیصل صالح حیات سمیت کوئی تیئس ایم این اے پیپلزپارٹی سے الگ ہوکر پیٹریاٹ گروپ بنا کر قاف لیگ کے ساتھ حکومت میں شامل ہوگئے اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ ایم ایم اے کو مل گیا۔ تیئس ارکان کے الگ ہوجانے کے بعد اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی عددی قوت84 سے کم ہو کر61 رہ گئی ان میں سے بھی ڈاکٹر شیر افگن الگ ہوئے اور کابینہ میں شامل ہوگئے‘ ظفر اقبال استعفا دے کر قاف لیگ کے ٹکٹ پر رحیم یار خان سے دوبارہ اسمبلی میں پہنچ گئے یہ وہ وقت تھا جب پیپلزپارٹی اپنا نام تبدیل کرکے پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے نام سے جسٹرڈ ہوئی البتہ کمانڈ بے نظیر بھٹو ہی کے ہاتھ میں رہی۔
جنرل مشرف سے ڈیل کے بعد بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں بد قسمتی سے اپنی واپسی کے تین ماہ کے بعد ہی راولپنڈی میں بم دھماکے میں شہید ہوگئیں ان کی شہادت کے بعد ایک وصیت کی بنیاد پر آصف علی زرداری پارٹی کے چیئرمین بن گئے اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر وہ اپنے تمام داغ دھونے میں کامیاب رہے اب ایک بار پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کے مقبول خیال کے ہامی بنے ہوئے ہیں اسی لیے نواز شریف کو نہ بچانے کا نعرہ لگا کر وہ پھر صاف و شفاف ہوتے جارہے ہیں۔ ایک وہ وقت جب پارٹی کی تشکیل ہو رہی تھی تو اس وقت جمہوریت کا نعرہ لگایا گیا آج جب کہ پارٹی پچاس سالہ جشن منا رہی ہے تو آصف علی زرداری کی سیاست کا بنیادی نکتہ ہی نواز شریف کی مخالفت ہے اور اسی کے ذریعے وہ قابل قبول ٹھیرے ہیں اسی نعرے کی وجہ سے انہیں ’’غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے کا موقع ملا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کرپشن کے اُس چغے کو اُتار پھینکنے کا موقع مل رہا ہے جو اُن کے لیے کمبل بن گیا تھا اور اب یہ نواز شریف کے گلے کا ہار بنا ہوا ہے۔ آصف علی زرداری کو صاف نظرآرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں نواز شریف کا سیاست میں کوئی کردار نہیں سزائیں ان کی منتظر ہیں اور پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کی تمام علامتیں موجود ہیں‘ یہاں ایک بات مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی میں مشترک ہے کہ بلاول زرداری‘ آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑے ہیں اور مریم نواز بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہیں اگر بلاول زرداری یہ نعرہ لگا دیں کہ آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور مریم نواز یہ نعرہ مستانہ لگا دیں کہ نواز شریف کی سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں تو پاکستان کی سیاست میں ایک نیا ہی رنگ بھر جائے گا پھر نیا میدان ہوگا‘ نئی اسٹیبلشمنٹ ہوگی اور نئی قیادت ہوگی‘ نرمیاں ہوں گی اور گرم جوشیاں بھی‘ یہ ہو نہیں سکتا۔ مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل کرلیا گیا اور اِدھر آصف علی زرداری بھی بلاول کو پوری طرح میدان میں اُتار چکے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مریم نواز نیب کیس میں اُلجھی ہوئی ہیں، جب کہ بلاول اُبھر رہے ہیں۔ بلاول کے پاس تو یہ کہنے کا جواز موجود ہے کہ وہ نئی سیاست کی بنیاد رکھیں گے لیکن مریم نواز کے لیے یہ سہولت موجود نہیں۔ وہ خود بھی کرپشن کے الزامات کا سامنا کررہی ہیں اور اُن کے والد بھی کرپشن کیسز کی زد میں ہیں، نواز شریف کے ذہن میں مستقبل کے کیا منصوبے ہیں، اس کا تو کسی کو علم نہیں، لیکن انہوں نے مزاحمت کا جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ بہت سے راستے بند کردیتا ہے آج کے آصف علی زرداری کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے یہ وہی آصف علی زرداری ہیں؟ جنہوں نے جوشِ خطابت میں اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی تھی۔