دھرنوں کی نوبت کیوں آتی ہے؟

450

پاکستانی سیاست کا رخ خطرناک ہوتا جارہاہے۔ پورے چار سال ہونے کو ہیں ملک میں دھرنے، جلوس، احتجاج کی سیاست جاری ہے۔ جو حکومت میں ہیں وہ کہتے ہیں کہ احتجاج ملک سے غداری ہے۔ جو احتجاج کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حکومت غیر آئینی اقدامات کرتی ہے اس لیے احتجاج کرنا پڑتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ دھرنے اور احتجاج درست ہوں یا غلط کوئی کام دھرنے اور احتجاج کے بغیر ہوتا بھی نہیں۔ جو مسئلہ بھی درپیش ہوا اس کا جائزہ لے لیں حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ کان نہیں دھرتی لیکن جب یہ مطالبہ احتجاج، دھرنے اور گھیراؤ تک پہنچ جاتا ہے تو حکومت حرکت کرتی ہے۔ اگر پاناما لیکس کے فوراً بعد حکومت کوئی عدالتی کمیشن قائم کردیتی، سب کو اعتماد لیا جاتا تو کسی احتجاج اور دھرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اگر عمران خان کے پہلے دھرنے کے مطالبات پہلے ہی مرحلے میں مان لیے جاتے اور اتنے ہی حلقوں کے نتائج دوبارہ جائزے کے لیے کھولے جاتے جتنے حلقوں کے نتائج کھولے گئے تھے تو عمران خان کو دھرنوں کی ضرورت نہ رہتی۔ اسی طرح اب وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ حکومت مخالف اتحاد ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتا، وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق کہہ رہے ہیں کہ ہمیں گرائیں گے تو ہم آپ کو نہیں چلنے دیں گے، ریڈ لائن عبور نہ کریں پھر ہم بھی اتنے اچھے نہیں۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار کہتے ہیں کہ دھرنے بند نہ ہوئے تو ملک میں جتھوں کی حکومت ہوگی اگر ملک کو آگے بڑھنا ہے تو یہ باب بند کرنا ہوگا اس حوالے سے انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ یہ فوج اور تمام اداروں کی ذمے داری ہے۔ اس قسم کی زبان حکومت کی طرف سے استعمال کی جارہی ہے اس کے جواب میں اپوزیشن اور عمران خان بھی ایسے ہی الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ مسلم لیگ کو مستقل کاندھا فراہم کرنے والی پیپلزپارٹی بھی اسی طرح کا لہجہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ن لیگی حکومت بچانے کا ٹھیکا نہیں لیا ہوا۔ کہتے وہ بھی یہی ہیں کہ ٹکراؤ کی سیاست ملکی مفاد میں نہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے درمیان اس قدر گرما گرمی رہے گی تو فائدہ کوئی اور اٹھاسکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج کل وہ فریق خود مشکلات میں ہے۔ بہر حال یہ تو الگ مسئلہ ہے اصل بات یہ ہے کہ حکومت کو شکایت ہے کہ دھرنے نہیں ہونے چاہییں۔ ان کی یہ بات درست مطالبہ جائز اور قومی مفاد میں ہے لیکن یہ بات نہایت ہی قابل غور ہے کہ دھرنوں تک نوبت آتی کیوں ہے۔ بات صرف مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کی نہیں ہے بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومت کا رویہ بھی یہی رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی دھرنے ہوئے اور جنرل پرویز کے دور میں بھی دھرنے دینے پڑے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دھرنوں اور احتجاج کے نتیجے میں وہ سارے مطالبات مان لیے جاتے ہیں جو دھرنوں سے قبل بھی کیے جاتے رہے تھے۔ اگر یہ مطالبات مان ہی لینے تھے تو ابتدا میں ہی خوش دلی سے مذاکرات کے نتیجے میں یہ باتیں مان لی جائیں تو عوام کا اور اس ملک کا بہت سارا نقصان بچ جائے گا۔ حالیہ دھرنوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ عمران خان کے دھرنوں میں بھی نقصان الگ اور بین الاقوامی سطح پر بھی سبکی ہوئی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کا تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں تو ہر وقت دھرنے اور احتجاج ہوتے رہتے ہیں وہاں سرمایہ کاری کیا کریں۔ اب تازہ معاملات فاٹا قوانین کا خاتمہ اور فاٹا کو صوبے میں ضم کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلے پر بھی دھرنا اور احتجاج ضروری ہے۔ وفاق کی جاب سے این سی آر کے خاتمے کے حوالے سے مبہم اعلان اور نیتوں کے فتور کے خدشے کے پیش نظر جماعت اسلامی نے لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ جماعت کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان کا کہناہے کہ تین روزہ دھرنا ہوگا۔ تشدد ہوا تو ذمے دار حکومت ہوگی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی فاٹا انضمام کے حوالے سے کہاہے کہ اگر 48 گھنٹے میں فاٹا انضمام کا بل نہ آیا تو سڑکوں پر آجائیں گے۔ حکومت کی جانب سے یہ مطالبے کو حکومت گرانے کی کوشش تصور کرکے اشتعال انگیز بیانات دینا بھی غلط ہے۔ اگر حکومت پہلے ہی مرحلے میں تمام فریقوں کو جمع کرے اور ان کے ساتھ مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ لائحہ عمل اختیار کرے تو ملک میں یہ دھرنے، یہ احتجاج اور لانگ مارچ ہی نہ ہوں۔ صرف مسلم لیگ نہیں جس کی حکومت ہو اس کے سوچنے کا مقام ہے کہ دھرنوں کی نوبت آتی ہی کیوں ہے۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنا عمرانی معاہدہ لکھنے کی بات کررہے ہیں ارے شہباز صاحب کہاں پرواز کرنے لگے جو عمرانی معاہدے لکھے ہوئے ہیں اس پر تو عمل کریں۔ یہ کیا کہ کیا معاہدہ لکھنے بیٹھ گئے جس آئین کی پاسداری کا سب حلف اٹھاتے ہیں عوام کو جو خدمات پہنچانے کے وعدہ کرتے ہیں ان کو تو پورا کریں۔ پورے ملک میں بجلی بجلی بجلی کا شور ہے لیکن ابھی تک بجلی کا معاملہ بھی ٹھک نہیں ہوا ہے جو ٹھیک ہورہاہے وہ استعمال کم ہونے کی وجہ سے اور جو منصوبے سی پیک کی وجہ سے شروع ہورہے ہیں ان کی تکمیل اور ان کی قیمتوں کے حوالے سے بھی عوام کو کچھ پتا نہیں کس ملک سے کتنا قرض لے کر عوام پر لاد دیا گیا ہے اس کا بھی کسی کو معلوم نہیں۔ سری لنکا نے جس طرح چین کے قرضے ادا کرنے میں ناکامی اپنی بندرگاہ چین کے حوالے کی ہے کیا پاکستان بھی مستقبل میں گوادر چین کے حوالے کرے گا۔ پاکستانی قوم کو یہ معلوم کرنے کے لیے بھی ایک دھرنا دینا ہوگا کہ سی پیک میں کون کون سے قرضے کن شرائط پر لیے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے کیا ساز باز ہوئی ہے۔ قوم کو کن ممالک اور کن اداروں کے ہاتھ گروی رکھا جارہاہے۔ اسمبلیوں میں کیا ہورہاہے۔ دھرنوں کے پیچھے کون ہے۔ ملک میں اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور لڑائی کیوں ہورہی ہے۔ اگر حکمران چاہتے ہیں اور مستقبل کے حکمران بھی چاہتے ہیں کہ دھرنوں کا باب بند ہوجائے تو پھر لیت و لعل اور آنا کانی کا باب بھی بند ہونا چاہیے۔