قموس گل خٹک
انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO)کی جانب سے عالمی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر کے مزدوروں کے سیاسی اور معاشی حقوق کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف اہم موضوعات پر کنونشن منظور ہوئے ہیں ۔جس میں انجمن سازی کا حق اور ٹریڈ یونین میں آؤٹ سائیڈر کا رول ، سیفٹی اور ہیلتھ، مزدوروں کے لیے سہ فریقی ویلفیئر اداروں کا قیام اوردیگر متعدد اہم کنونشن منظور کیے گئے ہیں اور ان میں سے کئی کنونشن ہماری حکومت نے بھی (Rectified)کررکھے ہیں ۔ اس سال آئی ایل او نے ایک اہم موضوع مائیگرینٹ ورکرز کے حقوق پر کنونشن کی منظوری دی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے مزدوروں کو بہت فائدہ پہنچے گااور پاکستان سے حصول روزگار کے لیے عرب ممالک جانے والے محنت کشوں کے حقوق کو اس کنونشن سے تحفظ مل سکے گا۔ یہ بات بھی پاکستانی مزدوروں کے لیے باعث فخر ہے کہ اس کنونشن کی منظوری میں ہمارے ملک کے نمائندے اور پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے سیکرٹری جنرل ظہور اعوان کا اہم کردار رہا ہے۔ اس سے قبل آئی ایل او نے سہ فریقی ویلفیئر اداروں کے قیام کے لیے کنونشن نمبر 144 منظور کیا تھا۔ جس کو حکومت پاکستان نے منظور کرنے کے بعد ورکرز ویلفیئر فنڈ ،ای او بی آئی ، مائینز لیبر ویلفیئر آرگنائزیشن اور سوشل سیکورٹی جیسے اہم ادارے تشکیل دینے کے بعد عملدرآمد کے لیے حکومت نے قانون سازی بھی کر رکھی ہے ۔ابتدا میں ان سہ فریقی ویلفیئر اداروں کے سلسلے میں حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ جتنا فنڈ صنعت کاروں سے وصول کیا جائے گا اسی شرح کے مطابق حکومت بھی بطور میچنگ گرانٹ جمع کرائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ صرف EOBI میں حکومت نے ایک بار کچھ فنڈ جمع کیا تھا لیکن اس کے بعد یہ بھی بند کردیا گیا اور مزدور دوستی کے نعرے لگانے والی سیاسی پارٹیوں نے برسراقتدار آکر بھی عملاً مزدوروں کی فلاح وبہبود پرنہ توجہ دی اور نہ ہی اپنے دور اقتدار میں بہتر قانون سازی کی۔ یہ بھی اس ملک کا سیاسی المیہ ہے کہ ان سہ فریقی ویلفیئر اداروں بالخصوص ورکرز ویلفیئر فنڈ سے مزدوروں کو آمرانہ دور میں آسان اور شفاف طریقے سے ویلفیئر اسکیموں کا اجراء بھی ہوا اور ان سے اربوں روپے کے مالی فوائد بھی ملے۔ جس میں جہیز گرانٹ، اسکالر شپ، سیونگ مشینوں کی فراہمی ، ڈیتھ گرانٹ ، بیس سالہ قسطوں پر مکانات اور معیاری تعلیم کے لیے ورکرز ماڈل اسکولوں کی اسکیمیں شامل ہیں۔ ایک عرصہ تک تو صنعتی مزدوروں کو ڈیوٹی پر جانے اور واپس گھر آنے کے لیے سائیکلوں کی فراہمی قابل ذکر خدمت تھی مگر یہ زمینی حقائق ہیں کہ جمہوریت اور عوام دوستی کے نام پر قائم سویلین حکمرانوں نے برسراقتدار آتے ہی ان اداروں کے فنڈز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اور ان اداروں پر اپنے منظور نظر بیورو کریٹ کو مسلط کرکے ان کو انتظامی اور مالی طورپر کنٹرول کرناشروع کردیا اور ان بیورو کریٹ کے ذریعے تمام معاملات میں حکومتی مداخلت شروع کی گئی۔ کبھی حکمرانوں نے ان اداروں میں مزدوروں کی فلاح وبہبود کے فنڈ پر FBR کے ذریعے تو کبھی فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعہ قبضہ کرنے کی کوشش کی تو کبھی گورننگ باڈی یا بورڈ میں اپنے سیاسی حامیوں کو نامزد کرکے اس منصوبے پر عملدرآمد کرایا۔ مگران تمام منصوبوں کا مقصد یہ تھا کہ مزدوروں کی فلاح و بہبود پر یہ فنڈ خرچ ہونے کے بجائے حکمرانوں کے سیاسی مقاصد کے حصول یا ان کے مسلط کردہ افراد کے معرفت وائٹ کالر کرپشن کے ذریعے ان کی جیبوں تک پہنچ سکے ۔ ان مقاصد کے لیے سہ فریقی ویلفیئر اداروں کے گورننگ باڈی یا بورڈ میں مزدور اور صنعت کاروں کی نمائندگی کے نام پر غیر نمائندہ اور غیر مستحق افراد کو نامزد کرنا شروع کیا گیا اس طرح ان اداروں میں اسٹیک ہولڈر کا کردار غیر موثر اور کمزور بنایا گیا۔ اور بیوروکریٹ کی رائے طاقتور یا حرف آخر بننا شروع ہوئی۔ اس کے ساتھ ان غیر نمائندہ نامزد افراد کو خوش کرنے کے لیے میٹنگ الاونس ڈیلی الاونس کھانے اور رہائش کے طورپر ملنے والے الاؤنسز غیر ضروری اضافے کیے گئے۔ بیورو کریٹ کے لیے بڑی بڑی گاڑیاں الاؤ نسز اور تعیش کی فراہمی پر زیادہ توجہ دی گئی ۔اور ویلفیئر اسکیموں سے مراعات حاصل کرنے کے لیے نت نئی اور ناقابل عمل شرائط عائد کرنے کا سلسلہ جاری کیا گیا تاکہ ویلفیئر اداروں کے فنڈ سے مراعات کا حصول مشکل ترین بناکر بدعنوانیوں کو فروغ دیا جاسکے۔ ان شرائط میں تمام ویلفیئر اسکیموں سے فوائد حاصل کرنے کے لیے درخواست گزار کو EOBI یا سوشل سیکورٹی سے رجسٹرڈ ہونے کی شرط نے پچاسی فی صد صنعتی کارکنوں کو درخواست دینے کے حق سے محروم کیا کیوں کہ سوشل سیکوٹی اور EOBIکے فیلڈ افسرصنعت کاروں کی ملی بھگت سے کارخانوں میں 18فی صد تک بمشکل کارکنوں کو رجسٹرڈ کرتے ہیں بقیہ ملازمین کی تعداد کو یہ شرائط سے عائد کرنے کی وجہ سے ویلفیئر کے فوائد سے محروم کر دیا گیا۔ جہیز گرانٹ اسکیم میں نکاح نامے کی شرط عائد کرکے اس کو شادی گرانٹ میں تبدیل کر دیا گیا کیا۔ اس ملک میں گڑھیا کی شادی بھی ایک لاکھ روپے میں ہوسکتی ہے۔ جب کہ عام طوپر نکاح نامے اب شادی ہال میں تیار ہوتے ہیں۔ ابتداء میں ضرورت مند غریب بعض لوگوں نے اس فنڈ کو حاصل کرنے کے لیے جھوٹے نکاح نامے بھی بنائے ہوں گے جس کی وجہ سے نکاح نامہ بھی نادرا سے مشروط کیا گیا۔ میں نے گورننگ باڈی ورکرز ویلفیئر فنڈ کے 136ویں اجلاس میں ان قابل عمل شرائط کو منسوخ کرنے کے لیے تحریک پیش کی جس پر ایک سہ فریقی سب کمیٹی بنائی گئی اور سب کمیٹی نے اتفاق رائے سے آئندہ گورننگ باڈی اجلاس میں سفارش پیش کی کہ ان شرائط کو ختم کرکے متبادل قابل عمل شرائط بھی تجویز کیے گئے، تاکہ مزدوروں کو ویلفیئر اسکیموں سے مراعات کا حصول ممکن ہوسکے۔ ان اداروں پر عملاً بیورو کریٹ کا قبضہ ہے صرف نام کے لیے ایمپلائر اور مزدور کو اسٹیک ہولڈر کہا جاتا ہے ۔لیکن حقائق یہ ہیں کہ اس فنڈ کے مالک وفاق اور صوبوں کے بیوروکریٹ ہیں ۔جنہوں نے 136ویں میٹنگ گورننگ باڈی ورکرز ویلفیئر فنڈ کے فیصلے پر آج تک عمل نہیں ہونے دیا۔ او رنہ آئندہ اس کی توقع رکھی جائے بلکہ کوشش یہ کی جائے گی کہ قموس گل خٹک اور محمد رمضان اچکزئی جیسے پاگل لوگ آئندہ گورننگ باڈی کے ممبر نہ بن سکیں ۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد سندھ نے وفاق سے علیحدگی اختیار کرکے صوبائی ورکرز ویلفیئر فنڈ ایکٹ 2014 صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا اور صوبائی بورڈ کی سہ فریقیت کو ختم کرکے اعلانیہ بورڈ کو ایک فریقی بلکہ حکومتی ادارہ بنادیا۔ سیکرٹری لیبر کی جگہ وزیر محنت کو اس کا چیئرمین، تین صوبائی اسمبلی کے ممبران اور نوصوبائی حکومت کے اداروں کے نمائندے اور مزدور مالکان کے نمائندے حکمران پارٹی کی حمایت یافتہ نامزد کرکے عملاً اس فنڈ کو حکمران جماعت کا فنڈ بنادیا۔ سال 2012 سے سندھ کے صنعتی مزدور ڈیتھ گرانٹ، جہیز گرانٹ، اسکالر شپ، سیونگ مشینوں کی مراعات سے محروم ہیں۔ مگر بورڈ کے اجلاسوں میں مزدوروں کی فلاح وبہبود کے دعویٰ آسمان کو چھوتے نظر آتے ہیں۔ہم بار بار ان جھوٹے دعووں کی تردید کرتے ہیں مگر اس کا نوٹس لینے والا کون ہے؟ ہم کرپشن کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں مگر احتساب کے آرے تو غلطی کرنے والے پٹواری TMOاور کلرکوں کو پکڑکر کارکردگی دکھاتے ہیں وہ کرپشن کرنے والوں کو نہیں پکڑتے۔ کہا جاتا ہے کہ کرپشن کرنے والوں کی گردن موٹی ہوتی ہے وہ ان کے ہاتھ میں نہیں آتے۔ اس لیے سندھ میں ویلفیئر اداروں کی تمام ویلفیئر اسکیمیں معطل مگر منافع بخش کاروبار جاری ہے اور ان اداروں پر مسلط بیورو کریٹ کسی مزدور لیڈر یا مرنے والوں کے بیواؤں یا وارثوں سے فون پر بھی بات کرنا گوارا نہیں کرتے وہ نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ اگر متعلقہ وزیر ہم سے خوش ہیں تو لیبر لیڈر کیا کرسکتے ہیں۔ ان کی حیثیت کیا ہے ؟ کہ ہم ان کو مطمئن کریں۔ بورڈ کا سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹری احتشام ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کے فنڈز کے اصل مالک ہیں اور بقول ایک مزدور کے کرپٹ بیورو کریٹ صدا بہار ہیں کیوں کہ وہ اوپر تک خوشیاں پہنچاتے ہیں اور اوپر والوں کی چھتری میں محفوظ کاروبار کرنے والے سندھ میں کسی سے نہیں ڈرتے۔