’مرکز‘

141

مہوش آزاد

ٹک ٹک…ٹک گھڑی رات کے 10 بجا رہی تھی۔ فائزہ کی آنکھ کھلی تو دیکھا گھر میں کوئی بھی نہیں ۔ کہاں گئے سب ؟؟ اس نے خودد سے سوال کیا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا تو موبائل اٹھا کر فراز کو کال ملائی ایک دفعہ دو دفعہ … تین دفعہ پر بے سود۔ یہاں بھی کوئی رسپانس ہی نہیں تھا’’ یا اللہ خیر کیا ہو گیا ہے فراز بھی فون نہیں اٹھا رہے، بچے بھی غائب ہیں۔ جب میں سوئی تھی تو سب ٹی وی لائونج میں ہی تو تھے وہ خاصی پریشان تھی۔ اسے خیال آیا کہ جا کر ساس سسر سے پوچھے، شاید انہیں کچھ پتا ۔ہو اس ارادے سے ان کے کمرے میں دستک دی پر کوئی جواب نہیں۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو دونوں گہری نیند سو رہے تھے کہ تہجد گزار تھے۔ یہاں سے بھی مایوس ہو کر تسبیح لے کر بیٹھ گئی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ ابھی دو تین تسبیحات ہی پڑھی تھی کہ گیٹ کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی بچوں کے قہقہوں کی آواز بھی۔ اللہ تیرا شکر ہے بے ساختہ دل کی گہرائی سے نکلا ۔
فراز اور بچے آ کر صوفے پر براجمان ہو گئے خاصے خوش لگ رہے تھے ۔
’’ کہاں تھے آپ لوگ بتا کرتو جاتے، میں پیچھے اتنا پریشان ہو رہی تھی۔ اوپر سے فون بھی نہیں اٹھا رہے تھے ، فائزہ نے شکوہ کیا۔
’’ماما ہم آئسکریم کھانے گئے تھے بہت مزہ آیا آپ کو پتا ہے پاپا کی پروموشن ہوئی ہے ‘‘چھوٹے رضا نے مزے سے فائزہ کو آگاہ کیا ۔
فراز مبارک ہو آپ کو۔ آپ نے بتایا نہیں‘‘ فائزہ نے فراز سے کہا ’’ کیا بتاتا اور کب بتاتا؟ تم آفس سے آتی ہی تو سو گئیں تھیں ’’تو اٹھا دیتے آپ مجھے‘‘
ہاں بالکل اور تم میرے اٹھانے سے اُٹھ جاتیں جیسے اور اگر اُٹھ بھی جاتیں تو جس موڈ میں تم ساتھ جاتیں، اس سے تو یہی بہتر تھا کہ تمہیں گھر میں ہی سوتا چھوڑ دیا جائے‘‘
چ چ چ
’’ مس فائزہ کیا ہو گیا ہے آ پ کو؟ میں نے کہا بھی تھا کہ پروفائل بہت اہم ہے، اسے دوسری فائلز کے ساتھ مکس نہیں ہونا چاہیے لیکن پھر بھی آپ بہت غیر ذمے دار ہوتی جار ہی ہیں۔ مجھے وہ فائل فوراً چاہیے، ڈھونڈیے اسے اور فائل 10 منٹ میں میری ٹیبل پر ہونی چاہیے۔‘‘ باس نے فائزہ کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا ۔
فائزہ فائل تلاش ہی کر رہی تھی کہ اس کی ایک ساتھی نے اس کے بوکھلائے بوکھلائے چہرے کو دیکھ کر وجہ دریافت کی ۔
’’ کچھ نہیں یار وقار انٹر پرائز کی فائل پتا نہیں کہاں چلی گئی ہے اور باس کو فوراً چاہیے‘‘
’’وہ فائل وہ تو میری ٹیبل پر ہے۔ پرسوں تم آئی تھیں ناں تو وہیں چھوڑ گئی تھیں۔
مجھے بھی خیال نہیں رہا کہ تمہیں دے دیتی ذہن سے ہی نکل گیا‘‘
جیسے تیسے فائل باس کو دینے اور ٹیبل سمیٹتے ہوئے اسے صبح کی باتیں یاد آنے لگیں ۔
’’فائزہ میرے موزے کہاں ہیں‘‘؟ فراز نے فائزہ کو آواز دیتے ہوئے پوچھا جو اس وقت کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی یہ وقت اس کے لیے بہت بھاری ہوتا تھا فراز اور بچے ایک ساتھ اسکول اور آفس کے لیے نکلتے تھے ان کا ناشتہ پھر بچوں کا لنچ باکس اور اس کے بعد اس کی اپنی تیاری ۔
’’وہیں ہوں گے دیکھیے‘‘ وہیں کہاں؟ اتنی دیر سے تو ڈھونڈ رہا ہوں نہیں مل رہے‘‘ فائزہ بھاگتی ہوئی کچن سے بیڈ روم ساری الماری چھان ماری پر موزے نہ ملنے تھے نہ ملے۔ فراز وہی میلے موزے پہن کر تیار ہو گیا ناشتے کے لیے ٹیبل پر بیٹھا تو ابھی ناشتہ لگایا ہی نہیں گیا تھا کہ بیگم صاحبہ تو موزوں کے چکر میں لگی ہوئی تھیں ’’چلو بچو اٹھو دیر ہو رہی ہے‘‘ ارے رکیے فراز کیا دیر ہو رہی ہے ناشتہ تو کر لیںبس میںلا رہی ہوں‘‘ فائزہ نے کچن سے سب کو روکا’’ نہیں رہنے دو اب ٹائم دیکھا ہے تم نے ناشتے کے چکر میں بچے اور میں سب لیٹ ہو جائیں گے رکھو تم اپنا ناشتہ اپنے پاس‘‘ فراز خاصی خفتگی سے کہتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکل گئے اور پیچھے پیچھے بچے بھی یہ جا وہ جا۔ فائزہ بس کھڑی دیکھتی ہی رہ گئی۔ اسے بہت دکھ ہوا۔ فراز بالکل ہی کوپریٹ نہیں کر رہے تھے آج کل اس کے ساتھ جبکہ انہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کی روٹین بھی کتنی ٹف ہے اور وہ ہر کام ہی کرنے کی کوشش کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ تھوڑی دیر سویر ہو جاتی ہے ۔
چ چ چ
’’ کیا ہوا کیا سوچ رہی ہو؟؟ حرا نے یکدم ایسے چونکا دیا ‘‘ کچھ نہیں یاربس آج کل کچھ صحیح نہیں چل رہا ہے نہ آفس نہ گھر ہر جگہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہو ہی جاتی ہے بچے الگ ناراض ناراض سے رہنے لگے ہیں‘‘۔’’ چلو یار چھوڑو ابھی سیلری ملے نہ تو انہیں اچھی سی شاپنگ کروا دینا ساری ناراضگی بھول جائیں گے ‘‘ حرا جو اسی کی ڈگر پر گامزن تھی اسے اپنے مفید مشورے سے نواز ڈالا ۔
بچے بہت خوش تھے۔ آج بہت عرصے بعد ماں کے ساتھ نہ صرف باہر جا رہے تھے بلکہ شاپنگ وغیرہ کا بھی پروگرام تھا۔ فائزہ نے آج آفس سے ہاف ڈے لیا تھا تاکہ کچھ وقت بچوں کو بھی دے سکے ۔
(جاری ہے)