عمتہ النبی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب

263

ام ایمان

گزشتہ سے پیوستہ
’’ چچا جان میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوتا ، میری خوشی تو اس میں ہے کہ آپ غیر اللہ سے تعلق توڑ کر دین حق کی پیروی کریں ۔
حضور اکرم ﷺ کی دعوت حق کے بعد وہ سخت ذہنی الجھن میں گرفتار ہو گئے اور اسی حالت میں گھر واپس آئے اور اللہ سے دعا کی
’’خدایا! اگر یہ صحیح راستہ ہے تو اس کی تصدیق میرے دل میں ڈال دے ۔ ورنہ میرے لیے اس سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا فرما دے‘‘
رات شیطانی وسوسہ کے باعث سخت بے چین رہے جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ذہنی الجھن کا حال بیان کیا ۔
حضور اکرم نے نہایت محبت سے بلیغ انداز میں اسلام کی حقانیت سمجھائی اللہ کا خوف دلایا اور قبول حق کے صلے میں جنت کی بشارت دی ۔ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات سن کر حضرت حمزہ کا دل یقین اور ایمان کے نور سے معمور ہو گیااور بے ساختہ زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے ۔
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صادق و امین ہیں آپ اپنے دین کا خوب اظہار کیجیے ، وللہ مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ میرے اوپر آسمان سایہ فگن ہو اور میں اپنے پہلے دین پر قائم رہوں‘‘۔
قبول اسلام کے بعد حضرت حمزہ ؓ کا بیشتر وقت دار ارقم میں صحبت رسول میں گزرنے لگا یوں اللہ نے حضرت حمزہ کے ذریعے اسلام کو طاقت عطا فرمائی ۔
حضور اکرم ﷺ کی ہجرت کے وقت حضرت زبیر ؓ تجارت کے سلسلے میں شام گئے ہوئے تھے جب وہ شام سے مکہ واپس آ رہے تھے تو راستے میں سرور عالم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ صدیق سے ملاقات ہوئی رسول اللہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے جا رہے تھے حضرت زبیر ؓ نے حضور اکرم ﷺ اور اپنے خسر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خدمت میں چند سفید کپڑے تحفتاً پیش کیے اور وہ یہ ہی سفید کپڑے پہن کر مدینے میں داخل ہوئے ۔
مکے واپس آنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد حضرت زبیر ؓ نے اپنی والدہ حضرت صفیہ اور اہلیہ حضرت اسماء بنت ابو بکر کے ہمراہ مدینے کی طرف ہجرت کی پہلے کچھ مدت قباء میں قیام پذیر رہے ۔
دہن سن1ھ اور کچھ روایات کے مطابق سن2ھ میں حضرت اسماء ؓ کے بطن سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پیدا ہوئے حضرت صفیہ ؓ کے یہ پوتے تاریخ اسلام کے لیے نوید مبارک ثابت ہوئے ۔ کیونکہ ان کے ولادت سے کچھ پہلے سے کسی مہاجر کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اور یہود مدینہ نے مشہور کر دیا تھا کہ مسلمانوں پر ہم نے جادو کر دیا ہے اور ان کا سلسلہ نسل منقطع کردیا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پیدا ہوئے تو مسلمانوں نے جوش مسرت میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے جس سے مدینے کے منافقوں کے دل سہم کر رہ گئے ۔
حضرت صفیہ مدینے میں حضرت زبیر ؓ کے ساتھ ہی رہتی تھیں اور وہ ان کی دل و جان سے خدمت میں کمر بستہ رہتے تھے ۔
حضرت صفیہ ؓ بہادر بھائی کی بہن اور ایک نہایت بہادر بیٹے کی ماں تھیں ۔ اسلام کا سب سے پہلا علم حضرت حمزہ ؓ کو عطا کیا گیا تھا ۔ جب رمضان سن ۱ ہجری میں رسول اللہ نے تیس سواروں کے ساتھ حضرت حمزہ کو امیر بنا کر ساحلی علاقے کی طرف روانہ کیا تھا ۔
غزوہ بدر سے پہلے پیش آنے والے تینوں غزوئوں میں حضور اکرم نے حضرت حمزہ کو ہی علمبردار بنایا
رمضان ۲ ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا جس میں حضرت حمزہ پورے جوش و خروش سے شریک ہوئے ۔ حضرت زبیر بن عوام نے بھی معرکہ بدر میں استقامت اور بے جگری کے ساتھ داد شجاعت دی کئی موقعوں پر خود رسول اللہ نے ان کی شجاعت اور جذبہ کی تعریف کی اور برکلا تعریف تحسین فرمائی ۔

(جاری ہے)