مظفر اعجاز
جس روز امریکا نے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرکے اپناسفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا اس روز اور ا س کے بعد سے پورے پاکستان میں ایک زبردست احتجاجی لہر جاری ہے۔ اس حوالے سے ہونے والے مظاہروں میں دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے جوش خطابت میں ایک لفظ بار بار استعمال کیا اسرائیل کے حوالے سے اگرچہ یہ عجیب بات ہے کہ کئی اکابرین نے اسرائیل کے دارالحکومت کو دارالخلافہ قرار دیا ہے۔ سب ہی کہہ رہے تھے کہ اسرائیل کا دارالخلافہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف امت مسلمہ سراپا احتجاج ہے۔ درجنوں پریس ریلیز ایسے آئے جن میں یہی لکھا ہوا تھا کہ اسرائیل کا دارالخلافہ منتقل کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ۔ یہ الفاظ ادا کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ یہ سب لوگ مطلب بھی خوب جانتے ہیں کہ دارالخلافہ اس مقام کو کہتے ہیں کہ جہاں خلیفۃ المسلمین کا قیام ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا میں کہیں بھی خلیفۃ المسلمین کا وجود نہیں اور کہیں بھی خلافت قائم نہیں پاکستان میں بھی برسہا برس کراچی اور پھر اسلام آباد کو دارالخلافہ ہی کہا جاتا رہا۔۔۔ یہ امت مسلمہ کے دلوں میں زندہ ایک ادارے کے حوالے سے الفاظ ہیں۔ لیکن یہ محض الفاظ نہیں ہیں رفتہ رفتہ اس کے بنیادی امور پس پشت جارہے ہیں۔ اس کا سبب غلام ابن غلام حکمران ہوں یا ترقی اور مادیت کی دوڑ میں شریک عام مسلمان لیکن نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ مسلمان اپنی بنیاد سے دور ہوتا جارہا ہے پہلے مدرسے‘ مسجد مکتبہ سے سب کچھ ملتاتھا ۔ بڑے بڑے عالم اور لیڈر ان ہی مدارس سے تیار ہوکر نکلے لیکن مغرب کی چال میں پھنس کر پوری امت جدید تعلیم کے چکر میں آگئی۔ نہ جدت ملی نہ تعلیم‘ آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر رہ گئے۔
بات صرف لفظ دارالخلافہ کی نہیں ہے بلکہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ امت مسلمہ کے دلوں میں خلافت کی عظمت زندہ و جاوداں ہے۔ جس طرح چند برسوں قبل کی بات ہے ہمارے بڑے مسلسل یہی کہتے تھے کہ بارہ وفات کے مہینے میں فلاں کام کرنا ہے۔ بارہ وفات کو چھٹی ہوگی تو یہ کام کریں گے۔ بارہ وفات کی نیاز دی جاتی تھی پوری امت کے دلوں میں یہ بات راسخ تھی کہ 12 ربیع الاول حضور کی وفات کا دن ہے۔ لیکن پروپیگنڈے اور میڈیا کے ذریعے اب یہ یوم ولادت بن گیا ہے وہ نسل اب بھی موجود ہے اور ہندوستان میں اب بھی مسلمان بارہ وفات ہی کہتے ہیں۔ ایک اور چیز جو ہماری گفتگو میں فلسطین‘ کشمیر اور کفار کے مظالم کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ وہ محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کے نام ہیں‘ عافیہ کو پورے پاکستان کی تمام حکومتیں لانے میں ناکام رہی ہیں گزشتہ 14 برس سے ایک ہی بات دہرائی جارہی ہے کہ ہے کوئی محمد بن قاسم جو ایک مظلوم کی آواز پر لبیک کہے۔۔۔ کیوں۔۔۔ ہمیں محمد بن قاسم کیوں یاد آتا ہے۔ اس موقع پر کوئی سپر مین کو یاد نہیں کرتا۔ اس موقع پر کوئی ٹارزن کو بھی نہیں پکارتا۔ ہم نے کسی مقرر‘ کسی مصنف‘ کسی لیڈر کو یہ کہتے نہیں سناکہ ساتواں آٹھواں یا دسواں امریکی بحری بیڑا فلسطینیوں کی مدد کرے گا۔ کیوں ۔۔۔ اس لیے کہ ہمارے دلوں میں خلیفہکا وہ ادارہ زندہ ہے جس نے ایک آواز پر اپنے بھتیجے کو سندھ بھیجا تھا او رہماری زبان اور دلائل ساتھ دیں یا نہ دیں ہمیں یہ یقین ہے کہ اگر اس کی بہن کو کوئی لاسکتا ہے تو وہ ایک خلیفہ کا فرستادہ ہی ہوگا ہم علامتی طور پر سوال کرتے ہیں کہ ہے کوئی محمد بن قاسم۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم اب بھی دل سے یہی یقین رکھتے ہیں کہ اگر کوئی مدد کرے گا تو ایسی ہی خصوصیات رکھنے والا مسلمان جرنیل ہوگا۔ یہ جو بار بار پکار اٹھتی ہے کہ ہے کوئی صلاح الدین ایوبی ۔۔۔ یہ محض پکار نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہمارے دلوں میں محفوظ اس یقین کا اظہار ہے کہ خلافت کا ادارہ ہی امت کو تمام مسائل سے نجات دلاسکتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نام کا کوئی آدمی اب نہیں آئے گا بلکہ جو بھی آئے گا وہ اس ادارے خلافت کا فرستادہ ہوگا۔ اس خلافت کی برکت سے امت کو دنیا میں کامیابی ملے گی۔ یہ جو ہمارے ججوں کے دماغ میں قاضی کا لفظ ہے کسی جج نے فرمایا تھاکہ ہم جج ہیں قاضی نہیں کہ بیٹھے بٹھائے فیصلے دے دیں۔ یہ کیا ہے۔۔۔ یہ بھی اس خلافت کے ادارے کے ایک شعبے قاضی کی تاریخی اہمیت ہے جو دلوں میں زندہ ہے زبان ساتھ نہیں دیتی کہیں مصلحت آڑے آتی ہے کہیں منافقت روکتی ہے۔
ہمارے ججوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ قاضی جب فیصلہ دیتے تھے تو اس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ فیصلہ قانون قدرت کے تابع‘ انصاف کے تقاضوں کے مطابق حکمت سے معمور اور عبرت کی مثال ہوتا تھا۔ تاریخ اسلام میں جتنے فیصلے قاضیوں نے دیے ان کو کسی نااہل شخص نے چیلنج نہیں کیا۔ کسی نے قاضی کے فیصلے پر پھانسی کے دس بیس سال بعد اپنے مقتول کو شہید قرار نہیں د یا۔ بلکہ کسی اور قاضی سے اسے شہید ثابت نہیں کرایا۔۔۔ کیونکہ قاضی کا فیصلہ انسانوں کی لکھی ہوئی کتاب پر انحصار نہیں کرتا تھا۔ یہ قاضی خلافت کے ادارے کے ماتحت کتاب اللہ اور سنت کے مطابق فیصلے دیتے تھے ان کے سامنے تو خلیفہ بھی ملزم کی طرح بیٹھتا تھا۔ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں۔۔۔ غور کریں اندر کوئی مسلمان بیٹھا ہے اپنے سارے اداروں کو یاد رکھتا ہے ان کے سحر میں اند رہی اندر کھویا ہوا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان تمام اداروں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک بار پھر خلافت کے ادارے کو بحال کریں۔ جس قسم کے نظام ہائے فرسودہ ہمارے ملکوں میں رائج ہوگئے ہیں وہ کبھی امت کے مسائل کا حل نہیں کرسکتے۔ ہاں ایک بات یاد رہے۔۔۔ یہ ادارہ بھی ان ہی اصولوں پر قائم ہوگا جن پر پہلے ہوا تھا‘ یہ گلی گلی محلے محلے ہر فرقے کا امام نہیں چلے گا۔ بہت کچھ قربان کرنا ہوگا اتفاق و اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ پھر یہ پھل ملے گا۔