بابا الف کے قلم سے
امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنا صدر ٹرمپ کا انفرادی فعل نہیں ہے۔ یہ امریکا کی بطور ریاست پالیسیوں کے تسلسل کا حصہ ہے۔ امریکا کے سابق صدور خواہش کے باوجود مصلحتوں کی وجہ سے جس پر عمل نہیں کرسکے۔ صدر ٹرمپ اندرون ملک جس طرح مسائل کا شکار ہیں،تمام حلقوں کی طرف سے جس طرح ان کی مخالفت کی جارہی ہے ایسے میں انہیں کسی طاقتور لابی کی حمایت کی ضرورت ہے اور امریکا میں یہودیوں سے بڑھ کر طاقتور لابی کوئی نہیں۔ ماضی میں بھی امریکی حکمران یہودیوں کی تائید کے خواہاں رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے اقدامات کیے جن سے انہیں یہودیوں اور اسرائیل کی تائید اور حمایت حاصل رہے اور اسرائیل مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔ عراق پر امریکا کا حملہ دراصل گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت تھی۔ امریکا اقوام متحدہ کو بھی یہودی ریاست کی توسیع کے لیے اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرتا رہا ہے۔ امریکا نے اقوام متحدہ کی ان قرار دادوں پر سختی سے عمل کرایا جن سے اسرائیل مضبوط ہوتا ہو۔ مختلف اقدامات کے ذریعے اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جون1967ء کی جنگ میں غصب کردہ فلسطینی علاقے اور شام کی گولان کی پہاڑیاں بدستور اسرائیل کے قبضے میں رہیں اور نصف کروڑ مظلوم فلسطینیوں کو ان کے چھنے ہوئے علاقے اور حقوق واپس نہ مل سکیں۔ امریکا کے سابق صدر ریگن کے دور میں امریکا کے نائب وزیر خارجہ کیسپر وائن برگر نے اسرائیل کو طاقتور اور مشرق وسطیٰ کی واحد قوت بنانے کے لیے ایک اچھوتا فارمولا پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’مغربی ایشیا کے دو اہم ملکوں کو آپس میں لڑا دیا جائے جن میں سے ایک عراق ضرور ہو۔‘‘ ایک امریکی یہودی جیمز وار برگ نے 17 فروری1950ء کو امریکی سینیٹ پر واضح کیا تھا ’’آپ پسند کریں یا نہ کریں دنیا میں ایک عالمی یہودی طاقت قائم ہوکر رہے گی۔ سوال صرف یہ رہ گیا ہے کہ یہ باہمی رضا مندی سے ہوگا یا جنگی فتح سے۔‘‘ 17جنوری1962ء وار برگ نے ’’لائف ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگلے 25 برس یعنی1987ء تک سرد جنگ ختم ہوجائے گی۔ کمیونسٹ روس میں جمہوریت رائج ہوگی۔ مشرقی اور مغربی یورپ باہم مل جائیں گے اور بالآخر یروشلم، بیت المقدس میں ایک نئی حقیقی اقوام متحدہ قائم ہوگی جوساری دنیا کے لیے سپریم کورٹ کا کام کرے گی اور انسانیت کے لیے آخری عدالت بن جائے گی۔‘‘ چناں چہ اس عالمی یہودی ریاست کے قیام کے لیے1980ء میں عراق ایران جنگ کروائی گئی جو آٹھ سال بعد بمشکل رُکی۔ اس جنگ میں عراق اور ایران کے بیشتر وسائل تباہ ہوگئے۔ اس کے 2 سال بعد امریکی سفیر ایریل گلاسپی نے صدام حسین سے عشوہ طراز ملاقاتیں کرکے اسے کویت پر حملے کے لیے اُکسایا اور کویت پر عراقی قبضہ کروا کے دوسری خلیجی جنگ کا ماحول پیدا کیا۔ جس کے نتیجے میں امریکا اور اتحادی افواج کے حملے میں عراق کو برباد کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد عرب بہار کے نتیجے میں مصر، شام، لیبیا اور پورے مشرق وسطیٰ کو جہنم کا دہانہ بنادیا گیا۔ امریکا کے پے در پے اقدامات اور اسرائیل کی مدد کا نتیجہ ہے کہ آج اہل فلسطین محض بائیس فی صد حصے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔آج مشرق وسطیٰ بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ صرف اسرائیل ہے جو اب مشرق وسطیٰ کی واحد طاقت ہے جس کے آگے مشرق وسطیٰ کے تمام اسلامی ممالک ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔
صدر ٹرمپ پہلے امریکی صدر نہیں ہیں جو اسرائیل کی خوشنودی اور حمایت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ سابق صدر جمی کارٹر نے یہود نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’میں بائبل کے دینی علوم کا ماہر ہوں اور اپنی بصیرت کی بنا پر کہتا ہوں کہ اسرائیل کا قیام بائبل کی پیشگوئی کی تکمیل ہے۔‘‘ اس طرح سابق صدر رونالڈ ریگن نے ایک گرجے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’میرا عقیدہ ہے کہ آخری بڑی جنگ، آرما گیڈن، یروشلم میں لڑی جائے گی جس میں کم ازکم 24کروڑ فوج مشرق سے مسلمانوں کی آئے گی اور کروڑوں فوج مغرب سے عیسائیوں کی آئے گی اور بالآخر یسوع مسیح آکر فتح حاصل کریں گے اور دنیا میں ایک خدائی حکومت قائم کریں گے۔‘‘ صدر ریگن ہر ہفتے ایک یہودی صومعہ میں عبادت کے لیے حاضری دیا کرتے تھے جہاں اسرائیل کے لیے مزید زمین کے حصول کے لیے دُعا کی جاتی تھی۔ صدر بل کلنٹن نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اسرائیل کے دفاع کے لیے مورچہ لگا کر لڑنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ صدر بش نے عراق پر حملے کے وقت اسے ایک مذہبی جنگ قرار دیتے ہوئے کروسیڈ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں کم از کم 10 وعدے کیے تھے۔ جن میں صدر اوباما کی غریب نواز صحت پالیسی کے خاتمے سے لے کر میکسیکو اور امریکا کے درمیان دیوارکی تعمیر تک شامل تھی۔ ان میں سے مسلمانوں کی بربادی اور اسرائیل کی بہبود کے سوا انہوں نے کسی وعدے کی تکمیل نہیں کی۔ امریکی سفارت خانہ اسرائیل سے تل ابیب منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’میں نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔‘‘
ان تمام تفصیلات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ 1948ء سے لے کرتاحال امریکااسرائیل کا معاون و مددگار اور مسلمانوں کا اولین دشمن رہا ہے لیکن اس کے باوجود عالم اسلام کے حکمران پالتو کتوں سے بدتر امریکا کے وفا دار رہے ہیں۔ 1967ء میں اسرائیل نے فلسطین کے بقیہ حصے پر قبضہ کرلیا اور اس کے ساتھ ہی بیت المقدس بھی اسرائیل کے قبضے میں چلاگیا۔ اس جنگ اور فلسطین پر قبضے میں امریکا نے اسرائیل کی ہر ممکن مددکی لیکن ہمارے حکمران اس وقت بھی امریکا کے وفا شعاردوست تھے اور آج بھی ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے میں بھی انہوں نے امریکا ہی کو ثالث تسلیم کیا۔ پاکستان بھی کشمیر کے معاملے میں امریکا کو ثالث تسلیم کرنے پر ہمہ وقت آمادہ رہتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سے امریکا کا پہلا انتخاب ہندوستان تھا۔ پاکستان کو امریکا بطور لیور بھارت کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ عرب ممالک کے حکمران اپنے عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ امریکا اسرائیل پر دباؤ ڈال کر اسے مقبوضہ علاقوں میں سے کچھ سے دستبردارہونے پر آمادہ کرلے گا جس پر وہ ایک آزاد ریاست کے قیام میں کا میاب ہوجائیں گے۔ مشرقی القدس جس کا دارالحکومت ہوگا۔ صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے ارد گرد کمزور اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ مصر اور ترکی پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ ممالک ہیں جو اسرائیل کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں لیکن ان ممالک کے بارے میں بھی کسی نہ کسی حوالے سے اسرائیل سے تعلقات کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امریکا کا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے سے پہلے ان حکمرانوں سے رابطہ قائم کیا تھا۔ عالم اسلام کے ان حکمرانوں کو فون کیے تھے جو القدس کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں جن میں سعودی عرب کے شاہ سلمان، مصر کے فرعون السیسی، فلسطین کے صدر محمود عباس شامل تھے اور انہیں بتایا کہ وہ چند گھنٹے بعد کیا اعلان کرنے والا ہے۔ اس کے باوجود ان حکمرانوں نے مردوں جیسی خاموشی اختیار کیے رکھی۔ صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد ان کے بیانات بعد از مرگ واویلے سے زیادہ کچھ نہیں۔ امریکا اور اس کی پیروی میں عالم اسلام کے حکمرانوں نے بیت المقدس کو صرف فلسطینیوں کا مسئلہ بنادیا ہے۔ آج وہ تنہا اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پورا عالم اسلام اور ان کی افواج بیت المقدس کی آزادی کے لیے متحرک نہ ہوں۔ مسلم افواج کبھی حرکت میں نہیں آئیں گی جب تک یہ حکمران ان پر مسلط ہیں۔ کفر ملت واحدہ ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام کے حکمران کفر کی اس ملت واحدہ کے ساتھ ہیں۔ بیت المقدس کی آزادی تب تک ممکن نہیں جب تک مسلم ممالک کے عوام ان حکمرانوں سے آزادی حاصل کریں اور جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر اپنی افواج کے ساتھ حرکت میں آئیں۔ آخرمیں فلسطین اور موصل کی ماؤں کا ایک گیت:
ٹھیرو ٹھیرو۔۔۔ ابھی ہم ہارے نہیں ہیں۔۔۔ ابھی ہمارے گھوڑوں کی ٹاپوں میں بڑادم ہے۔۔۔ دیکھ لینا۔۔۔ دیکھ لینا۔۔۔ ہم تمہیں اُڑادیں گے۔۔۔ ریت کے بگولوں کی طرح۔
(برائے ایس ایم ایس03343438802;)