گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ فاٹا میں ایف سی آر کے خاتمے کا بل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا پھر یہ بل ایجنڈے میں شامل کرلیا گیا بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ قومی اسمبلی سے فاٹا بل منظور کرالیا جائے گا اور ایف سی آر کے کالے قوانین کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ فاٹا کو صوبہ کے پی کے میں شامل کرنے سے جو کچھ ہوتا وہ تھا کہ فاٹا سے منتخب ہو کر آنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اب براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے جارہے تھے اس کے نتیجے میں یقیناًمَلِکوں کو اعتراض ہونا تھا کیوں کہ اب تک ان کے ووٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوتا تھا۔ دوسرے یہ کہ جس پارٹی نے زیادہ مَلِک قابو میں کرلیے اس کے ارکان کی تعداد زیادہ ہو جاتی تھی۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی گزشتہ کئی برس سے تحریک چلا رہی ہے اور بار بار قرار دادیں، تحریکیں اور سوالات قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اٹھائے گئے۔دو برس قبل دھرنے کی دھمکی بھی دی گئی توجس پر حکومت نے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن مذاکرات حسب توقع طوالت اختیار کرتے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جماعت اسلامی نے حکومتی دوہری پالیسی کو بھانپتے ہوئے لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ شاید یہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ کر فاٹا بل کی منظوری کے بعد واپس چلاجاتا لیکن حکومتوں کا کام دھرنوں کو دعوت دینا ہے اور پھر انہیں بھی کامیاب بنانا، چنانچہ راتوں رات فاٹا بل اسمبلی ایجنڈے سے خارج کردیا گیا اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو لانگ مارچ اور طویل دھرنے پر اکسایا گیا۔ تاہم جماعت اسلامی نے عوام کی پریشانی کے پیش نظر دھرناملتوی کردیا۔ اب یہ دھرنا 31مارچ کو ہوگا۔ حکومت اسلام آباد میں ایک اور دھرنے کو کامیاب بنا نے جارہی ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ حکومتوں کی پالیسیاں معاملات کو دھرنوں تک پہنچاتی ہیں ۔ آخر دھرنوں تک نوبت کیوں آتی ہے۔ حکومت نے راتوں رات بل خارج کر کے بتادیا کہ دھرنوں تک نوبت کیوں آتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بل کو ایجنڈے سے خارج کرانے کے پیچھے جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن بھی ہیں۔ رات گئے وزیر سیفران کو فون اور حکومتی اتحاد سے علیحدگی کی دھمکی کی خبربھی سامنے آچکی ہے۔ یقیناًفاٹا بل کی منظوری سے ان کی پارٹی کو نقصان ہوگا لیکن یہ دیکھنا بھی ان کا کام تھا کہ فاٹا کے لوگوں کو انگریز کے کالے قانون ایف سی آر سے نجات مل جائے گی۔ اب آنے والے دنوں میں دیکھنا ہے کہ دھرنا کیا رخ اختیار کرتا ہے اور میڈیا کیا تصویر دکھاتا ہے۔ یقینی طور پر میڈیا اس کو وہ کوریج نہیں دے گا جو خاص مقاصد کے تحت سجائے جانے والے دھرنوں کو دی گئی تھی۔ میڈیا کوریج سے فرق ضرور پڑتا ہے لیکن میڈیا والے قومی مفاد کے بجائے بریکنگ نیوز پر توجہ دیتے ہیں اس لیے وہ اپنی ضرورت کے مطابق ہی کوریج کرتے ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اس مسئلے پر ہنگامہ ہوا ہے اور فاٹا اکان اسمبلی نے بھی احتجاج کیا ہے گو ایف سی آر کے نعرے بھی لگائے گئے ،نواز شریف کا پسندیدہ نعرہ بھی رخ بدل کر سامنے آیا کہ ایجنڈے سے بل کیوں نکالا۔ اسپیکر کے ڈائس کے سامنے دھرنا بھی دیا گیا۔ اسمبلی میں بھی دھرنا اور شور شرابا ان ارکان کے شوق کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ خود حکومت نے یہ موقع فراہم کیا تھا کہ لوگ احتجاج کریں۔ اس وقت حکومت کی اولین ترجیح سی پیک ہے نہ کوئی قومی منصوبہ بلکہ اس کی ساری توجہ آخری چند ماہ حکومت برقرار رکھنے پر ہے اگر پیر سیالوی بھی دھمکی دیں تو حکومت پریشان ہو جاتی ہے۔ اس اہم مسئلے پر تو فاٹا کے ارکان اور جماعت اسلامی کے ارکان حکومت کا ساتھ مانگ رہے ہیں تو حکومت کا ساتھ دے بھی سکتے ہیں۔ لہٰذاقومی مفاد کے سامنے چھ سات نشستوں کی کمی بیشی کو نہ دیکھاجائے بلکہ مسلم لیگ ن ایف سی آر کے قانون کا خاتمہ کر کے اپنا نام تاریخ میں رقم کرالے۔ یہ بات تو طے ہے کہ آج نہیں تو کل یہ کام ہو کر رہے گا۔ اس کا سہرا کس کے سر سجے گا یہ وقت بتائے گا۔