شوگر مافیا پر بھی توجہ دی جائے

411

پاکستان کی عدالتیں پاناما، حدیبیہ اور درجنوں بڑے بڑے مقدمات نمٹانے میں مصروف ہیں ۔ میڈیا ان معاملات کو حد سے زیادہ اچھال کر روزانہ بریکنگ نیوز کی دوڑ میں لگا رہتاہے اور اس اثنا میں عوام کے کھربوں روپے دوسرے دھندوں میں ٹھکانے لگا دیے جاتے ہیں۔ سندھ کے گنے کے کاشت کار آج کل بری طرح پریشان ہیں۔ صوبے کی 34میں سے 19شوگر ملیں ایک اہم شخصیت کی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے مالک یا ان کی ملکیت میں سابق صدر آصف علی زرداری کا حصہ ہے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ہم سے مقررہ قیمت 180روے من سے کم قیمت پرگنا خریدنا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال پر احتجاج کرنے کے لیے جب کاشت کار بلاول ہاؤس جانے لگے تو پولیس نے گنے کی کرشنگ کے بجائے کاشت کاروں ہی کو کرش کردیا، انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وحشیانہ لاٹھی چارج کر کے 80 افراد کو گرفتار کرلیا۔ ان لوگوں کا قصور کیا تھا۔ وہ ملکی معیشت کا پہیہ چلوانا چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ جلد از جلد شوگر ملیں کرشنگ شروع کریں اور ملک میں شکر کی پیداوار شروع ہو جائے لیکن حکومت سندھ بااثر شوگر مل مالکان کی خاطر کاشت کاروں ہی پر ٹوٹ پڑی۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ مظاہرے سے لاعلم تھے۔ یہ اظہار لاعلمی اس لیے کیا گیا ہے کہ بڑی شخصیت کے سامنے سبکی سے بچا جاسکے اور انتخابات میں کاشت کاروں کے ردعمل سے بھی بچا سکے کہ چونکہ ہمیں تو احتجاج ہی کا پتا نہیں تھا ورنہ ہم اس احتجاج کو ہونے ہی نہ دیتے۔ یہ بات اعلیٰ شخصیت کوبتائی جائے گی۔ اور کاشت کاروں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ تو پولیس نے از خود نوٹس لے کر لاٹھی چارج کرڈالا۔ گنے کے کاشت کاروں کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا ظاہر کیا جارہا ہے۔ اگر کاشت کاروں کو صرف 50روپے فی من بھی رقم کم دی جائے تو یہ رقم ایک ایک شوگر فیکٹری میں کروڑ ہا روپے ہوگی اور معاملہ اربوں روپے تک جائے گا۔ جب کاشت کار کو دبایا جائے گا تو وہ گزارہ کرنے کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کرے گا۔ یا تو گنے کی کاشت چھوڑے گا، جس سے ملک کو نقصان ہوگا ، یا پھر گنا تولنے میں ہیر پھیر کرے گا یا پھر ناقص مال شامل کرے گا۔ بہرحال وہ کسی نہ کسی طرح اپنا نقصان پورا کرے گا۔ لیکن شوگر مافیا کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ آگے چل کر جب گنے کی کرشنگ ہوگی اورشکر تیار ہوگی تو شوگر مافیا اپنی مرضی کے اعداد و شمار حکومت تک پہنچائے گی تاکہ شکر برآمد کرنے کی اجازت لی جاسکے۔ یہ مافیا یہاں بھی نہیں رکتی، بلکہ جب دو لاکھ ٹن شکر برآمد کرنے کی اجازت ملتی ہے تو جب تک سرکاری ذخائر سے ڈیڑھ لاکھ ٹن شکر برآمد ہونے کی کاغذی کارروائی مکمل ہوگی اس وقت تک یہ مافیا کھلی مارکیٹ سے یا شوگر ملوں سے براہ راست دو لاکھ ٹن شکر برآمد کردیتی ہے۔ اس کے بعد شکر کے بحران کی خبریں شائع کروائی جاتی ہیں اور یہی مافیا اپنی ہی برآمد کردہ شکر زیادہ پیسوں میں درآمد کرلیتی ہے۔ کبھی کبھار بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ اضافی شکر برآمد کی ہی نہیں گئی ہوتی بلکہ محض کاغذی کارروائی کی جاتی ہے۔ اس طرح کوئی خرچہ کیے بغیر پاکستانی شکر غیر ملکی ظاہر کر کے پاکستانی مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کردی جاتی ہے۔ عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے شوگر مافیا کی طرف بھی توجہ دیں تو شاید قوم کا کچھ بھلا ہو جائے۔