مسلم ممالک نے بیت المقدس کو فلسطینی دارالحکومت قرار دیدیا

1358
استبول: بیت المقد کے مسئلے پراوآئی سی کے اجلاس کے بعد مسلم ممالک کے سربراہوں کا گروپ فوٹو
استبول: بیت المقد کے مسئلے پراوآئی سی کے اجلاس کے بعد مسلم ممالک کے سربراہوں کا گروپ فوٹو

استنبول(خبرایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے امریکی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دے دیا ۔57مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم کے سربراہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بیت المقدس کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرے جب کہ اقوام متحدہ اس تنازع کو جلد حل کرائے۔ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے اوآئی سی کے ہنگامی اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردوان،فلسطینی صدر محمود عباس ،سعودی فرماں رواشاہ سلمان بن عبدالعزیز، پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، ایرانی صدر حسن روحانی، اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم، آذربائیجان کے صدر الہام الیو، بنگلا دیش کے صدر عبدالحامد سمیت 22 ممالک کے سربراہان اور وزرائے خارجہ جب کہ دیگر کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ استنبول میں اجلاس کے موقع پر فلسطین کے حق میں مظاہرہ بھی کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے23نکاتی مشترکہ اعلامیے میں امریکی فیصلے کی شدید مذمت کی گئی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکا کا مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق اعلان امن عمل سے دستبرداری ہے،اس کے فیصلے دہشت گردی اور انتہاپسندی کو فروغ دے رہے ہیں لہٰذا اب وہ مشرق وسطی امن عمل سے اپنا کردار ختم کرے۔اعلامیے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنا متنازع فیصلہ واپس لیں۔ مشترکہ اعلامیے کی اکثر شقوں میں فلسطینیوں کی ہر فورم پر مکمل حمایت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یروشلم کے معاملے کے حل کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تو رکن ممالک اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے کر جائیں گے‘‘۔افتتاحی خطاب میں ترک صدر رجب طیب ایردوان نے مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً فلسطین کی ریاست اور یروشلم کو اس کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل غاصب اور دہشت گرد ریاست ہے جب کہ امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکا کا ثالث کا کردار اب قبول نہیں کریں گے کیونکہ اس کا اسرائیل کے حق میں تعصب سامنے آ گیا ہے اوروہ امن بات چیت میں کردار ادا کرنے کے لیے نااہل ہوگیا۔القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور رہے گا۔ محمود عباس نے کہا کہ وہ سلامتی کونسل سے اسرائیل کی رکنیت منسوخ کرنے اور فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کا مطالبہ کریں گے۔ فلسطینی صدر نے اقوامِ متحدہ سے مشرقِ وسطیٰ امن عمل کی قیادت سنبھالنے اور اس مقصد کے لیے نیا طریقہ کار وضع کرنے کی بھی اپیل کی۔پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرناعالمی قوانین کے منافی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے لہٰذا پاکستان امریکی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ پورا پاکستان فلسطین اور فلسطینی عوام کی پشت پر کھڑا ہے۔ وزیراعظم نے او آئی سی کے رکن ممالک سے اپیل کی کہ وہ تمام تر اختلافات بھلا کر القدس کے معاملے پر مضبوط اور متفقہ لائحہ عمل طے کریں ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو انصاف اور آزادی کے لیے متحد ہونا ہو گا، ہمیں آزاد فلسطینی ریاست کی جدوجہد کرنا ہوگی جس کا دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو۔ ان کا کہنا تھاکہ سلامتی کونسل مقبوضہ بیت المقدس کے معاملے میں اپنا کردار ادا کرے،خود مختار فلسطینی ریاست جس کا دارلحکومت القدس شریف ہو او آئی سی اور مسلم امہ کے لیے واحد روڈ میپ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ القدس شریف پر غیر معمولی اجلاس بلانے پر ترک صدر کے شکرگزارہیں ،یہ غیر معمولی وقت ہے، ہم ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں ،ہر مسلمان کے ذہن میں سوال ہے کہ کیا ہم اپنے اختلافات سے بالاتر ہو کر سوچیں گے، کیا ہم متحد ہو کر اپنے عوام کو امید کا پیغام دیں گے یا پھر اعلامیے جاری کریں گے جس پر کوئی موثر اقدامات نہ اٹھا سکیں۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کشمیر میں بھارتی مظالم کا بھی تذکرہ کیا۔ شاہد خاقان نے کہا کہ ہم امہ کی یکجہتی اور اتحاد کو صحیح رنگ نہیں دے سکے، ہم کمزوریوں پر قابو پائے بغیر کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتے، ہماری کمزوریوں کے باعث امریکا نے سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا خوفناک قدم اٹھایا، احتجاجی مظاہروں کے ذریعے غیظ و غضب کا اظہار کرنے سے کچھ نہیں ہو گاَ ہمیں واضح اظہار کے ساتھ بھرپور یکجہتی اور اتحاد دکھانا ہے، ہمیں فوری طور پر اپنے سیاسی اختلافات کو ختم کرنا ہو گا، ہمیں ایک واضح حکمت عملی اور مشترکہ کوشش کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ،انہی اقدامات کی بدولت ہم اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر پائیں گے ،سلامتی کونسل اگر ناکام رہتی ہے تو جنرل اسمبلی میں ہمیں حمایت حاصل کرنی ہے قابض افواج کے رویوں کو تبدیل کرنے کے لیے او آئی سی کے اقتصادی اقدامات پر عمل کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ اقدام پر عالمی عدالت انصاف سے رائے لی جائے، دنیا بھر کے مسلمان انصاف اور رواداری کے لیے اکٹھے ہوں ، دارالحکومت القدس شریف کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست مسلم امہ کے لیے مسئلے کا واحد حل ہے، عالمی برادری کے پاس انصاف کے اصولوں اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کا موقع ہے ۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت سلامتی کونسل اپنا کردار ادا کرے ،عالمی امن و سلامتی کے لیے بنیادی کردار میں ناکامی پر سلامتی کونسل کی ساکھ متاثر ہو گی۔سعودی فرماروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ بیت المقدس سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر ہمیں گہری تشویش ہے۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب فلسطینیوں کے حقوق کے حصول تک حمایت جاری رکھے گا۔علاوہ ازیں ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا امن عمل میں ایماندار ثالث نہیں جب کہ فلسطینی عوام اپنے حقوق کے حصول پر زور دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر دنیا کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔علاوہ ازیں پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اوآئی سی اجلاس کے موقع پر فلسطین کے صدر محمود عباس، اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم این الحسین اور صومالیہ کے صدر محمد عبداللہ محمد سے بھی ملاقات کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔