فاٹا اصلاحات اور ارکان اسمبلی کے رویے

262

فاٹا اصلاحات بل بدھ کو تیسرے روز بھی قومی اسمبلی میں پیش نہ کیا جا سکا جس پر تیسرے دن بھی حزب اختلاف نے واک آؤٹ کیا۔ لیکن کیا حکومتی ارکان اسمبلی بھی واک آؤٹ پر ہیں؟بدھ کو بھی یہ صورتحال تھی کہ ن لیگ کے ارکان قومی اسمبلی میں سے صرف 16حاضر تھے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان اسمبلی کی اکثریت ہے اور صرف ان کی آمد سے کورم پورا ہو جاتا ہے۔ مگر وہ سب نجانے کہاں مصروف تھے چنانچہ بدھ کو بھی کورم پوا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کے ہر اجلاس پر سرکاری خزانے سے ایک بڑی رقم صرف ہوتی ہے اور قومی خزانہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ یہ عوام کی جیبوں سے نکالے ہوئے پیسے سے بھرا جاتا ہے اور خالی کوئی اور کر دیتا ہے۔ اجلاس میں ارکان اسمبلی، خاص طور پر سرکاری ارکان کی عدم موجودگی سے اجلاس ملتوی ہو تو یہ قوم کا نقصان ہے جس کی ذمے داری ارکان اسمبلی پر عاید ہوتی ہے۔ یہ ارکان اسمبلی مفادات حاصل کرنے تنخواہ بڑھوانے کے لیے تو یک زبان اور یک جا ہو جاتے ہیں جس کام کے لیے عوام نے انہیں منتخب کیا ہے، وہی کام نہیں کرتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے ارکان پر جرمانہ عاید کیا جائے لیکن ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ دوسری طرف اگر ایک چپراسی اپنے فرائض سے غفلت برتے اور حاضر نہ ہو تو اسے نکال دیا جاتا ہے یا کم از کم اس کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ کیا ارکان اسمبلی بھی عوام کے حقوق کے چوکی دار اور محافظ نہیں ہیں؟ لیکن ہر سطح پر ہر طرح کے چوکیدار اور محافظ اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہیںَ لیکن وہ لوگ جو جمہوریت اور آئین کے ’’کسٹوڈین‘‘ کہلاتے ہیں، ان کے عدم دلچسپی افسوسناک ہے۔ یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ اعلان کے باوجود فاٹا اصلاحات بل قومی اسمبلی میں کیوں پیش نہیں ہوا اور اسے ایجنڈے سے کس کے کہنے پر نکالا گیا۔ حکومت کی ٹال مٹول پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے فاٹا اصلاحات کے لیے 31دسمبر کی حتمی تاریخ دی ہے۔ جماعت اسلامی کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا تھا تاہم دھرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا گیا۔ سراج الحق نے جناح ایونیو میں خطاب کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ جنوری کے آغاز پر ملک بھر سے کارکنان جماعت اسلام آباد آئیں گے اور دارالحکومت کو خیمہ بستی میں تبدیل کر دیا جائے گا، ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم پر تاکے ڈال دیے جائیں گے۔ امید رکھنی چاہیے کہ فاٹا اصلاحات کا عمل جلد از جلد مکمل ہو جائے گا گو کہ محمود اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی فاٹا انضمام کی مخالف ہے اور فاٹا کے کچھ قبائلی بھی اس کے خلاف دھرنا دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ادھر ایوان بالا میں حلقہ بندی کا بل پیش نہیں ہو سکا چنانچہ انتخابات کا بروقت انعقاد مشکوک ہوتا جارہا ہے اورہرطرف بے یقینی کی صورتحال ہے۔ ن لیگ کے متعدد ارکان اسمبلی بھی ’’تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق تذبذب میں ہیں کہ کدھر کی اڑان بھری جائے۔ فاٹا اصلاحات بل پیش کرنے میں کیا رکاوٹیں ہیں، اس کے بارے میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ارکان پارلیمان کو اعتماد میں لیں گے اور اطلاعات کے مطابق وہ کل، جمعہ کو تمام پارٹیوں کے سربراہوں سے ملاقات کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ قومی اسمبلی ہی میں ارکان کو اس بل کے بارے میں اپنے خدشات سے آگاہ کر دیتے۔ قومی اسمبلی میں حاضر چند ارکان میں سے ایک شیخ آفتاب احمد نے پیر کی شب وزیراعظم سے ملاقات کی اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی خواہش ہے کہ ارکان اسمبلی اور قبائلی ارکان اس وقت تک اپنا احتجاج ملتوی کر دیں جب تک وزیراعظم یہ وضاحت نہ کر دیں کہ فاٹا ریفارمز میں حکومت کو کیا چیلنج درپیش ہیں۔ وزیراعظم ترکی گئے ہیں جہاں سے وہ جمعرات کی رات کو واپس آئیں گے اور جمعہ کو تمام پارٹیوں کے سربراہوں کو ناشتے پر بلا کر انہیں درپیش رکاوٹوں سے آگاہ کریں گے۔ بیت المقدس کے تنازع کے پیش نظر وزیراعظم کا دورہ ترکی یقیناًاہم ہے لیکن فاٹا اصلاحات بل کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں ان کے بارے میں منگل کو بھی ارکان اسمبلی کو بتایا جاسکتا تھا‘ مگرہر اہم معاملے میں ٹال مٹول اور تاخیر شاید حکمرانوں کی فطرت بن چکی ہے۔ شاید اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ دیکھیں قوم کا ردعمل کیا ہے‘ کیا اس پر بھی دھرنا دیا جائے گا اور پھر فوج کی مدد سے کوئی معاہدہ ہوگا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی بھی اپنی مخالفت کی وجوہات بتائے کہ وہ کیوں نہیں چاہتی کہ فاٹا کے عوام پاکستان میں شامل ہو کر تمام حقوق حاصل کرسکیں۔