مداخلت یا خوف کی سیاست؟

356

دنیا میں انتخابات پر کسی دوسرے ملک کے اثر انداز ہونے کا موضوع بہت پرانا ہے ان دنوں تو دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکا اور روس کے درمیان اسی حوالے سے کھٹ پٹ جاری ہے۔ امریکا میں ایک موثر حلقے نے روس پر انتخابات میں مداخلت اور اثر انداز ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس بحث کا نچوڑ یہ تھا کہ امریکا کے صدارتی انتخابات میں روس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب کرانے کے لیے درپردہ کردار ادا کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بحث کم ہو رہی مگر اس کے اثرات اب بھی جا ری ہیں۔ اب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست گجرات کے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی پاکستانی کوششوں کی بات کرکے بھارتی سیاست میں ایک غیر معمولی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ کانگریس گجرات میں جو مودی کے سیاسی ٹیک آف کی جگہ بھی ہے اور ان کی وزرات اعلیٰ کی بے شمار تلخ یادوں کی امین بھی بی جے پی کے بیل کو سینگوں سے پکڑنے کی کوشش میں ہے۔ یہاں انتخابات میں نریندر مودی کئی سنجیدہ چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ اسی گرما گرمی کی فضاء میں نریندر مودی نے اپنے الزام کے لیے دو باتوں کا سہار ا لیا۔ مودی کی پہلی دلیل پاک فوج کے ایک سابق ڈی جی ارشد رفیق کا ٹویٹ ہے جس میں کہا گیا کہ کانگریس کو گجرات کی وزارت اعلیٰ کے لیے سونیا گاندھی کے مشیر احمد پٹیل کو نامزد کرنا چاہیے۔ مودوی کی دوسری دلیل کانگریس کے راہنما سابق وزیر اور کالم نگار مانی شنکر آئر کے گھر پر ہونے والی ایک ملاقات تھی جس میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری اور پاکستان کے ہائی کمشنر سہیل محمود کے علاوہ بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سابق آرمی چیف دیپک کپور نے شرکت کی۔ اس نجی محفل کی خبر ایک ٹی وی چینل نے بریک کی اور مودی نے اسی کو پاکستان کی مداخلت کا رنگ دے کر اپنی انتخابی حریف کانگریس کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی داخلی سیاست میں پاکستان کو گھسیٹنے سے گریز کیا جائے جب کہ من موہن سنگھ اور مانی شنکر آئر اس کے بعد تردیدوں اور بیانات میں اُلجھ کر رہ گئے۔
مانی شنکر آئر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی بھارت کی طرف سے امن عمل کی حمایت میں سرگرم تھے اور اب انہوں نے اپنے گھر میں منعقد محفل کو ایک ایسا پرائیوٹ ڈنر قرار یا جس میں پاک بھارت تعلقات کے سوا کسی موضوع پر بات نہیں ہوئی۔ مانی شنکر آئر نے مودی کو نیچ قرار دیا اور اس لفظ کے استعمال کر نے پر کانگریس نے ان کی رکنیت ہی معطل کر دی مگر مودی کا الزام اب بھی گرد اُڑا رہا ہے۔ من موہن سنگھ جو ذاتی حیثیت میں نرم خو انسان سمجھتے ہیں باقاعدہ طور پر ایک وضاحتی بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئے جس میں مودی پر گندی زبان استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔ مسلمان راہنما اسد الدین اویسی کی طرف سے کہا گیا کہ اگر مودی کا الزام سچ ہے تو انہیں فوراً اس جرم میں شریک افراد کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ مانی شنکر آئر نے گواہی کے طور پر اپنے گھر میں ہونے والی تقریب کے شرکاء کی باضابطہ فہرست جاری کی جس میں خورشید محمود قصوری اور پاکستانی ہائی کمشنر کے سوا سب بھارت کے نامی گرامی شہری ہیں ہیں۔ جن کا تعلق فوج، خارجہ امور اور سیاست اور بیوروکریسی کے مختلف شعبوں سے رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے کالم نگار پرتاب بھانو مہتا نے Power and Insecurity کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں کہا ہے کہ مودی کے اس الزام سے لگتا ہے کہ بھارت میں امید کی سیاست کی جگہ خوف کی سیاست جڑ پکڑ رہی ہے اور بھارت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اس سے بھارتی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اُٹھیں گے۔ نریند مودی نے پاکستان پر ریاست گجرات کے انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کیا تو اس سے بھارتی داخلی سیاست میں جہاں تناؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ تنقید در تنقید کے کئی نئے باب کھل گئے ہیں وہیں یہ حقیقت بھی آشکارا ہوئی کہ پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کسی نہ کسی سطح پر بیک ڈور چینل ڈپلومیسی جاری ہے۔ یہ کوششیں اگرچہ ابھی تک کوئی واضح عملی شکل اختیار نہیں کر سکیں مگر دونوں طرف سے سوچ وبچار کا عمل جاری ہے۔ بھارت میں کانگریس نریندر مودی کو پیچھے کر کے امن گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی خواہش مند ہے۔ نریندر مودی نے بھارت میں جو پاکستان مخالف فضاء بنائی ہے اس میں کانگریس کا اس راہ پر چلنا سیاسی خود کشی سے کم نہیں اس کے باجود کانگریس بھارت پر مودی ازم کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تدابیر اختیار کر رہی ہے۔ شاید بین الاقوامی طاقتیں بھی یہ بات سمجھ چکی ہیں کہ نریندر مودی کا گرم اور لاٹھی سے ہانکنے والا اسٹائل پاکستان کے لیے کارگر نہیں بلکہ اس پالیسی سے پاکستان مزید ردعمل کا شکار ہورہا ہے۔ اس لیے اب کانگریس اور من موہن سنگھ کی ’’نرم گرم‘‘ پالیسی کو دوبارہ بروئے کار لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے بھارتیوں کے کان میں ’’ڈومور‘‘ کی جو سرگوشی کی تھی شاید اس میں بھی کانگریس سے آگے آنے کا کہا گیا ہو۔ نریندر مودی کی حکومت پاکستان کے ساتھ امن اور خوش گوار تعلقات کو واجپائی کا ورثہ سمجھ رہی ہے اور وہ واجپائی اور ان کے ہمنواؤں سے جان چھڑا کر ایک نئی سخت گیر ترکہ کی وارث بن بیٹھی ہے۔ اس لیے انہیں واجپائی کی وراثت کو آگے بڑھانے اور ساتھ لے کر چلنے میں دلچسپی ہی نہیں مگر کانگریس کے لیے یہ من موہن سنگھ اور اس سے بھی پہلے نوے کی دہائی کے کانگریسی وزیراعظم نرسیما راؤ کی وراثت ہے جس نے کشمیریوں کے مطالبات کے ماننے کے حوالے سے ’’اسکائی از دی لمٹ‘‘ کا معنی خیز جملہ کہا تھا۔