پہلے ایک شعر:
بھلادیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے
کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز
جگن ناتھ آزادپہلی مرتبہ پاکستان آئے۔ مدیر نقوش محمد طفیل نے ان کے اعزاز میں دعوت دی۔ تمام ڈشیں سبزیوں پر مشتمل تھیں۔ کھانا ختم ہونے کے بعد جگن ناتھ آزاد نے محمد طفیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ کو سبزیاں ہی کھلانی تھیں تو پھر پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ یہ واقعہ ہمیں جاوید ہاشمی کی تیسری کتاب کی تقریب رونمائی پر یاد آیا۔ اگر کتابیں ہی لکھنی تھیں تو سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بات اپنی جگہ تاہم جاوید ہاشمی کا کتابیں لکھنا بہر حال ایک اہمیت تو رکھتا ہے وہ یہ کہ اقتدار کا کھیل گلیڈی ایٹر کی طرح کھیلا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ مخالف پر وار کریں اور وہ کچھ نہ کرے لیکن جاوید ہاشمی کے اس وار کا جواب مخالفین کے لیے ممکن نہیں۔ کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین نے اظہار خیال کیا۔ ایسے مواقع پر کتاب پر جو اظہار خیال کیا جاتا ہے اس میں الفاظ اور خیالات کی وسعت محض چند جملوں تک محدود ہوتی ہے۔ ’’میں اتنی شاندار کتاب تحریر کرنے پر جاوید ہاشمی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ جاوید ہاشمی کی غالباً ۔۔۔ تیسری۔۔۔ یا شاید چوتھی کتاب ہے۔‘‘ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی اور یہ مقررین اپنے پسندیدہ موضوعات کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ مقررین نے ملک میں ہونے والے حالیہ واقعات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا مذہب کو سیاسی انارکی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے کہا: ’’میں تمام سیاسی جماعتوں سے کہتا ہوں چاہے وہ دائیں بازو کی ہوں یا بائیں بازو کی کہ سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کے استعمال کی نئی کوششوں سے خبردار رہیں‘‘۔
اس میں کوئی کلام نہیں کہ تحریک لبیک نے پاکستان میں مذہبی سیاست کے نئے رحجانات کو متعارف کرایا ہے۔ بدقسمتی سے فیض آباد دھرنے میں مذہب کے داعیوں کے جو انداز واطوار سامنے آئے وہ اسلام کی کوئی خوش نما تصویر پیش کرنے سے قاصر رہے۔ مطالبات کے اثبات کے لیے ایسے دھرنوں کی جن سے لاکھوں خلق خدا کی زند گی اجیرن ہوجائے اسلامی تعلیمات میں کہاں تک گنجائش ہے، یہ بجائے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس دھرنے میں جو زبان استعمال کی گئی، جس طرح بزرگ سیاست دانوں اور علماء کرام کی تذلیل کی گئی اس کا اسلام کے آداب معاشرت سے کہاں تک تعلق ہے؟۔ اسلامی تعلیمات نے اہل جہان کو جس تہذیب سے روشناس کرایا ہے کیا یہ انداز گفتگو اس سے کوئی مطابقت رکھتا ہے؟ پھر اس کے بعد ایمان کی تجدید، کسی پیر یا گدی نشین کے سامنے ازسر نو کلمہ پڑھنے اور اس کی جانب سے تصدیق کے بعد کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا جو سلسلہ چلا ہے، اس میں دین کی خدمت سے زیادہ سیاست اور انا کی تسکین کا پہلو غالب ہے۔ مذہب کی اس نئی تعبیر اور انداز نے عوام کے ایک بڑے حصے کو علماء اور دینی سیاسی جماعتوں سے بیزار کیا ہے۔ جو سیکولر اور لادین حلقوں کا پسندیدہ ہدف ہے۔ دین سے بیزاری کا جو رحجان سیکولرز اور لبرلز ایک طویل جدوجہد کے باوجود پیدا نہ کرسکے وہ ہمارے دینی حلقوں نے خود پیدا کردیا۔ اس رحجان کی آڑ لے کر یہ مذہب کو سیاست اور ریاست سے جدا کرنے والے طبقے ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ موقع کیسا ہی کیوں نہ ہو، تقریب کی نوعیت کچھ بھی ہو یہ لوگ اپنے مخصوص ایجنڈے کو زیر بحث لے آتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر بھی یہی صورت حال سامنے آئی۔
کسی سیاست دان یا جمہوری شخصیت کی طرف سے دین اور سیاست کی جدائی کی بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے پاکستان کے عوام کے جذبات اور احساسات کا علم ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے مسلمان یقیناًاس طرز سیاست سے بیزار ہیں جو اسلام کی غلط توضیحات پر مبنی ہے لیکن اس سے یہ معنی اخذ کرنا کہ لوگ اپنی زندگیوں میں اسلام کا نفاذ نہیں چاہتے ایک دھوکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کی اس آرزو کو جسے وہ مقاصد پاکستان میں سے سمجھتے ہیں دبانے اور کچلنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اور طریقے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ نظام جو اس قدر فرسودہ اور متعفن ہوچکا ہے کہ اسے اصلاح کے بجائے تدفین کی ضرورت ہے۔ تقسیم سے پہلے کے جابرانہ نظام سے مختلف نہیں ہے۔ پاکستان کے ابتدائی قوانین قانون آزادی ہند 1947 کے تحت بنائے گئے تھے۔ 1956 تک نہ ان قوانین سے نجات حاصل کی گئی اور نہ ہی کسی قسم کی آئین سازی کی طرف توجہ دی گئی۔ یوں 1935ء کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ہی نافذ رہا۔ 1956 اور اس کے بعد آنے والے تمام آئین جن میں 1973 کا آئین بھی شامل ہے، برطانوی سیکولر طرز پر ہی تر تیب دیے گئے ہیں۔ اس سیکولر چھاپ کو چھپانے کے لیے 1973 کے آئین میں اسلامی اصطلاحات کو استعمال کیا گیا ہے اور ایسی دفعات کو سامنے لایا گیا ہے جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ یہ اسلامی ہیں۔ لیکن زیادہ اہم معاملات جیسا کہ معیشت سے سود کا خاتمہ، اس پر لمبے بحث مباحثے کے دروازے تو کھول دیے گئے لیکن اس کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ عدالت عظمیٰ میں کسی آئینی شق کی تشریح وتوضیح کے لیے قرآن وسنت سے رجوع نہیں کیا جاتا بلکہ مختلف ممالک کے قوانین سے مثالیں تلاش کی جاتی ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ موجودہ آئین کا ماخذ قرآن وسنت نہیں ہے۔ موجودہ نظام کی حقیقت یہ ہے کہ یہ سیکولر ہے جسے مغربی ممالک میں کی جانے والی قانون سازی کے مطابق بنایا گیا ہے۔
اسلام اپنے ماننے والوں سے مکمل خود سپردگی کا طالب ہے۔ دین اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ محض کچھ معاملات میں۔ اندرون اور بیرون ملک کی تنظیموں کے جتنے بھی سروے سامنے آئے ہیں ان سے یہ بات مکمل طور پر آشکار ہے کہ پاکستان کے عوام مکمل طور پر اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ نظام عوام کو ان کے خوابوں کی عملی شکل دینے سے قاصر ہے۔ اس نقص کی بنا پر اسلام کی جو بھونڈی اشکال جنم لیتی ہیں ان کی وجہ سے سیکولر حضرات کو سیاست سے دین کے اخراج کی بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔ سیکولر میڈیا جس کو لے اڑتا ہے اور یوں یہ بات سنی بھی جاتی ہے۔ اگر اسلام کا فیض رساں نظام نافذ ہو اور عوام اس کی برکات سے مستفید بھی ہورہے ہیں تو ان روشنیوں کے مقابل کس میں ہمت ہے کہ اندھیروں کی بات کرسکے اور اس کی بات سنی اور برداشت بھی کی جاسکے۔
(برائے ایس ایم ایس: 03343438802)