وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے گزشتہ منگل کو کلفٹن کراچی میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بجلی کے بحران اور دہشت گردی پر قابو پالیا، کسی کو شہر قائد کا امن تباہ نہیں کرنے دیں گے۔ اگر سچ مچ ایسا ہوگیا ہے تو یہ بہت بڑی خوش خبری ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے تو اس سے بہت آگے بڑھ کر فرمایا کہ ہم نے جرائم کو ملیامیٹ کردیا۔ اسی کے ساتھ ایک رپورٹ ہے کہ کراچی میں ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں اچانک بڑھ گئی ہیں۔ لوگوں کو دن دہاڑے لوٹا جارہاہے۔ مارکیٹوں کے تالے توڑ کر سامان لوٹا جارہاہے۔پولیس لوگوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے میں ملوث ہے۔ انسپکٹر جنرل سندھ اے ڈی خواجہ نے منگل ہی کو تو عدالت میں رپورٹ جمع کرائی ہے کہ سندھ پولیس کے 12 ہزار افسران و اہلکار جرائم میں ملوث ہیں۔ ان پولیس افسران میں گریڈ 17 سے 21 تک کے لوگ شامل ہیں جن کے خلاف آئی جی سندھ نے کارروائی کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گریڈ 16 اور اس سے کم کے 184 پولیس اہلکاروں کو سزائیں دے دی گئی ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار آئی جی سندھ کو حاصل نہیں ہے چونکہ سندھ حکومت آئی جی اے ڈی خواجہ کے خلاف جارہی ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ ان کی رپورٹ سے بھی اتفاق نہ کرے لیکن رپورٹ عدالت عظمیٰ کو پیش کی گئی ہے۔ چنانچہ اس کی تحقیقات ہوسکتی ہے۔ پولیس کے 12 ہزار افسران و اہلکاروں کا جرائم میں ملوث ہونا بہت سنگین مسئلہ ہے جسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس پس منظر میں مراد علی شاہ کا یہ دعویٰ ہوا میں اڑ جاتا ہے کہ کراچی سمیت پورے صوبے سے جرائم کا خاتمہ کردیاگیا۔ جرائم کے خاتمے کے ذمے دار تو خود مجرم ہیں جرائم میں ملوث ہونے اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ایک معمولی سی مثال کراچی کے علاقے بہادر آباد میں پیش آنے والے واقعے کی ہے وہاں معمولی سی تکرار پر ایک بدمعاش اپنے مسلح ساتھیوں کو لے کر پہنچا اور دوسرے شخص پر سر عام تشدد کرتا رہا ۔اسے بری طرح زخمی کردیا اور وہاں موجود اہلکار کھڑے دیکھتے رہے۔ جب علاقے کے تھانے کی پولیس پہنچی تو اس ٹیم کے سربراہ سب انسپکٹر نے کوئی کارروا ئی کرنے کے بجائے کہاکہ مجرم میرا رشتے دار ہے، یہ ایسے ہی کرے گا اور مجرموں کو جانے دیا۔ وفاقی وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ کسی کو شہر قائد کا امن تباہ نہیں کرنے دیں گے لیکن یہ کام تو خود پولیس کررہی ہے۔ دوسرا دعویٰ احسن اقبال کا یہ ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پالیا گیا ہے اور بجلی کھپت سے زیادہ ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر توانائی جانے کس دنیا میں رہتے ہیں۔ بار بار یہ کہاجارہاہے کہ بجلی فاضل ہے اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیا ہے ۔کتنے ہی علاقے ایسے ہیں جہاں 10 سے 12 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے اور کوئی اس کی نشاندہی کرے تو مختلف تاویلات پیش کردی جاتی ہیں کہ یوں ہے اور یوں ہے۔ نہ تو لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم ہوئی ہے اور نہ ہی شہر قائد کو امن تباہ کرنے والوں سے نجات ملی ہے۔