معذور افراد ملک کا سرمایہ ہیں سہولیات دے کر انہیں معاشرے کارآمد فرد بنایا جا سکتا ہے

1353

معذور افراد کی سہولیات کے لیے حکومت نے قانون سازی کی ہے‘ ملازمتوں کے کوٹے میں اضافہ کیا گیا‘ عمارتوں میں ریمپ کی تعمیر لازمی اور ٹرانسپورٹ میں رعایت دیں گے‘ صوبائی وزیر کوئی معذور ناکارہ نہیں ہوتا‘ پوشیدہ صلاحیتوں کو نمایاں کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے‘ بہتر تربیت کے ذریعے معذور افراد کو معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا سکتا ہے‘ ماہرین جسارت میڈیا گروپ، نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن، ہیلپنگ ہینڈ ،نیشنل بینک اورآباد کے تعاون سے منعقدہ سیمینار سے ڈاکٹر محمد واسع،سید ابن حسن، ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹر نیلم زہرہ، ڈاکٹر تہمینہ تابش، ڈاکٹر مدیحہ لطیف ،شاہد میمن و دیگر کا خطاب

ورلڈ ڈس ایبیلیٹی ڈے کا ترجمہ ویسے تو عالمی یوم معذوری کے طور پر کیا جاتا ہے ،لیکن اس دن کو منانے کا مقصد معذوروں کودر پیش مسائل سے عوام کو آگاہ کرنا، ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگہی پھیلانا اور معاشرے میں ان کی مکمل حصے داری کو بتانا ہے جو معذوروں کو سماج کے دھارے سے جوڑنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے سماج کا المیہ ہے کہ یہاں معذور افراد اکثر امتیازی سلوک کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی حالت عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتی۔ معذوری اور محتاجی کی وجہ سے لوگ اِن کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ معذور افراد کو سماجی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی ہر حوالے سے اپنے ہم پلہ لانے کے لیے مناسب اقدام کرے۔
اقوام متحدہ نے بھی معذور افراد کو بااختیار بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ایک خود انحصار زندگی کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے معذور افراد میں اعتماد پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1982ء میں معذور افراد کے لیے دنیا بھر میں عملی اقدام کے ایک سوشل سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ایسے افراد کے لیے لفظ ’اسپیشل ‘ استعمال کیا گیا۔ دنیا بھر میں معذور افراد بنیادی طور پر ہمت اور حوصلہ کی ایک زندہ مثال ہوتے ہیں۔ایسے بھی معذور افراد ہیں جواپنی معذوری کو اپنی مجبوری نہیں سمجھتے بلکہ اس حالت میں بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے ایک کارآمد اور عام انسانوں کی مانند بہتر زندگی گزار تے ہیں۔اس حوالے سے جہاں دنیا بھر میں عالمی ادارہ صحت اپنی کوششیں کر رہا ہے وہاں مقامی سطح پر بھی اس حوالے سے مختلف ادارے ایک درد مند دل کے ساتھ اور ایک بڑے جذبے اور مشن کو لے کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جسارت میڈیا گروپ نے نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن، ہیلپنگ ہینڈ اور نیشنل بینک کے تعاون سے مقامی ہوٹل میں اس دن کے حوالے سے سیمینار کی خوبصورت تقریب منعقد کی۔ تقریب کی نظامت ڈاکٹر عبد المالک نے انجام دی۔ سیمینار کے مہمان خصوصی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ تھے جبکہ دیگر مہمانان میں پروفیسر محمد واسع (سربراہ شعبہ نیورو لوجی آغا خان یونیورسٹی ، صدر نارف)، ڈاکٹر مدیحہ لطیف(اسسٹنٹ پروفیسر ، کلینیکل سائیکالوجی، ڈاؤ یونیورسٹی)، نیلم زہرہ، آکوپیشنل تھراپی ہیڈ، لیاقت نیشنل اسپتال اینڈمیڈیکل کالج،تہمینہ تابش (ہیڈ آف اسپیچ اینڈ لینگویج پیتھالوجی ،لیاقت نیشنل اسپتال اینڈ میڈیکل کالج)، سید ابن حسن( نائب صدر ، نیشنل بینک آف پاکستان)، پروفیسر حافظ نسیم (صدر، پاکستان کوئز سوسائٹی) اور شاہد میمن ( چیئرمین ، پاکستان ڈس ایبل فاؤنڈیشن )تھے۔
نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبد المالک نے سیمینار کے تمام شرکا کو خوش آمدید کہااور پروگرام کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہاکہ معذور افراد ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ انہیں بھی زندگی کا حق حاصل ہے ،ہمیں اس دن کے موقع پر عوام اور خواص کو یہ ہی بات سمجھانی ہے کہ یہ لوگ ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں ، ان کی بحالی اور بہتری میں ہی ہمارا فائدہ ہے۔ عزیز بیگم میموریل اسکول کے اسپیشل بچے بھی خصوصی دعوت پر اس تقریب میں شریک تھے ۔تقریب کے آغاز میں ان بچوں نے خوبصورت تلاوت، نعت رسول ﷺ اور ٹیبلو پیش کر کے سیمینار کی تقریب کا بہت خوبصورت اور جذباتی آغازکیا۔ تمام شرکا نے بچوں کی پرفارمنس کو بے حد سراہا۔ ٹیبلو کے لیے جس نظم کا انتخاب کیا گیا تھا وہ بھی انتہائی موضوعاتی اور اُس میں ہمت کے ساتھ آگے بڑھنے اور آسمانوں کو چھولینے کا متحرک پیغام تھا جس پر بچوں نے نہایت خوبصورتی سے پرفارم کیا۔
سیمینار سے نیشنل بینک کے نائب صدر سید ابن حسن نے بچوں کی پرفارمنس پر داد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہاکہ ’اتنی خوبصورت پرفارمنس دیکھ کر تو ان بچوں کو ڈس ایبیل کہا ہی نہیں جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اِن بچوں کے اساتذہ کی محنت بھی قابل ستائش ہے۔ یہ بچے کسی طور پر بھی باصلاحیت بچوں سے کم نہیں۔ جسارت نے اسپیشل افراد کے لیے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے جن کے اندر خداداد صلاحیت موجود ہے۔ میڈیا نے بھی اس اہم معاملے پر اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے ‘۔

18 برس کی عمر میں جوڈی مورزسکی کے ساتھ ایک حادثہ ہوا جس کے نتیجے میں اُس کا پورا جسم مفلوج ہو گیا وہ صرف آنکھ جھپک سکتی تھی۔اس حالت میں اُس نے ابلاغ کرنا سیکھا پھر اسی معذوری کی حالت میں اپنے بستر پر پڑے پڑے ہی اُس نے ایک کتاب لکھوائی۔ وہ کتاب (Locked In) دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔ اُس نے اپنی کتاب کے صفحہ اول پر یہ پیغام دیا کہ ’دنیا میں اس بات کی اہمیت نہیں کہ آپ کے پاس کیا نہیں ، اہمیت اس بات کی ہے کہ جو آپ کے پاس ہے آپ اس کا کیا بہتر استعمال کر سکتے ہیں‘۔ اس نے کہاکہ میں صرف آنکھیں جھپکا سکتی تھی اور صرف آنکھیں جھپکا کر دنیا کو ایک پیغام دیا وہ دنیا کی مشہور مصنفہ بن گئی

سیمینار سے، اپنے بے مثال حافظے کی بنا پر پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے پروفیسر حافظ نسیم الدین، پاکستان بلائنڈ ایسو سی ایشن کے رکن اور پاکستان کوئز سوسائٹی کے صدر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’میں جسارت کو مبارکباد دیتا ہوں اس اقدام پر کہ ہم جیسوں کے لیے درد دل رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جتنا کام معذور افراد کی بہبود کے لیے ہونا چاہیے اُتنا نہیں ہو رہا۔ شاہد میمن کی پوری زندگی معذور افراد (نابیناؤں) کی بہبود میں گزری ہے۔تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو اس حوالے سے آگاہی اور ہمت بڑھانے کے پروگرامات ترتیب دینے چاہیے‘۔
پاکستان ڈس ایبل فاؤنڈیشن کے چیئرمین شاہد میمن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ’اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب ہماری چلائی گئی تحریک رنگ لا رہی ہے، معذوروں کو اسٹریم لائن کرنے کا عمل تیز ہوتا محسوس ہو رہا ہے، معذوروں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنا پر اپنی پہچان کرائی ہے۔ یو این او نے جو چارٹر دیا ہے ،حکومتی پالیسی کے مطابق اُس پر عمل کرتے ہوئے اُنہیں مواقع دیے جانے چاہییں۔ اُن کو اہمیت دی جائے تو یہ لوگ عملی زندگی میں بھر پور کردار ادا کرتے نظر�آئیں گے ۔ ہمیں معذور افراد کو تنہائی کا شکار بنانے کے بجائے انہیں معاشرے میں ضم کرنا ہوگا۔

اقوام متحدہ کی پالیسی کے مطابق معذوروں کو مواقع دیے جانے چاہییں‘ اسپیشل افراد کو اہمیت دی جائے تو یہ عملی زندگی میں بھر پور کردار ادا کرتے نظر�آئیں گے ہمیں معذور افراد کو تنہائی کا شکار بنانے کے بجائے معاشرے میں ضم کرنا ہوگا‘ شاہد میمن

1
آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے شعبہ نیورو لوجی کے سربراہ ڈاکٹر محمد واسع نے سیمینار میں اپنی گفتگو کا آغاز دو سچی کہانیوں سے کیا۔ پہلی کہانی ایرک وہینمئیرکی تھی جو 5 برس کی عمر میں نابینا ہوگیاتھا، اُس کی والدہ اُس کی مدد کرتی تھی، 9 سال کی عمر میں اُس کی والدہ بھی وفات پا گئی، 10 سال کی عمر میں اُس نے یہ سوچا کہ مجھے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنی چاہیے۔ تمام دوستوں نے اُس کا مذاق اڑایا کہ اس چوٹی پر تو آنکھ والے نہیں جا سکتے تم کیسے جاؤ گے؟ مگر دنیا نے دیکھا کہ 25سال کی عمر میں ایرک دنیا کاپہلا نابینا انسان بناگیاجس نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کی۔ ایرک نے ثابت کیا کہ اس کے اندر کی طاقت اور جذبہ عام آدمی سے زیادہ ہے۔ دوسری کہانی جوڈی موزرسکی کی ہے۔ 18 برس کی عمر میں اس کے ساتھ ایک حادثہ ہوا جس کے نتیجے میں اُس کا پورا جسم مفلوج ہو گیا۔ وہ صرف آنکھ جھپک سکتی تھی۔اس حالت میں اُس نے ابلاغ کرنا سیکھا پھر اسی معذوری کی حالت میں اپنے بستر پر پڑے پڑے ہی اُس نے ایک کتاب لکھوائی۔ وہ کتاب (Locked In) دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔ اُس نے اپنی کتاب کے صفحہ اول پر یہ پیغام دیا کہ ’دنیا میں اس بات کی اہمیت نہیں کہ آپ کے پاس کیا نہیں ، اہمیت اس بات کی ہے کہ جو آپ کے پاس ہے آپ اس کا کیا بہتر استعمال کر سکتے ہیں‘۔ اس نے کہاکہ میں صرف آنکھیں جھپکا سکتی تھی اور صرف آنکھیں جھپکا کر دنیا کو ایک پیغام دیا وہ دنیا کی مشہور مصنفہ بن گئی۔ ڈاکٹر واسع نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہاکہ ’معذوری کی شرح دنیا بھر میں بڑھتی جا رہی ہے ،دنیا کی آبادی کا 14 فیصد ہے، پاکستان میں معذوروں کی تعداد کا تخمینہ 50 لاکھ لگایا گیا ہے۔ اس پر کام جاری ہے کہ ہم معذوری کو کم کر سکیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 5 اہداف ایسے مرتب کیے ہیں جو دنیا سے معذوری کو کم کر سکتے ہیں ۔ہماری وفاقی وزارت صحت نے اس حوالے سے قومی ہیلتھ وژن بنایا ہے تاکہ ہم پاکستان میں معذوری کی شرح کم کر سکیں۔ پاکستان میں معذوروں میں سب سے بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ ان میں اسکول جانے والے 40 فیصد بچے پاکستان میں معذور ہیں۔ پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک میں سے ہے، جہاں معذور لوگ کام نہیں کرتے۔ صرف 14 فیصد کام کرتے ہیں ، 10فیصد لوگو ں کے پاس بحالی کی سہولت ہے، 86 فیصد کام نہیں کرتے، جبکہ ان میں سے 70 فیصد کچھ نہ کچھ کام کر سکتے ہیں۔ اگر ان کو درست ، تربیت اور سہولت دی جائے۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کہنے پر کام کیا ہے اور ایک ڈائریکٹر یٹ بنایا ہے ، قومی پالیسی بنائی گئی ہے ، ڈس ایبلز کے لیے پالیسی بنی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو سہولیات دی جائیں، بحالی کے مراکز ہوں چھوٹی چھوٹی چیزیں درکار ہیں۔ کین ، وہیل چیئر سمیت اور چھوٹی چیزوں کی بدولت وہ معاشرے میں کار آمد بن سکیں۔ایسے حالات پیدا کریں کہ وہ آسانی کے ساتھ سفر کر سکیں۔ ساری سہولیات ہوں۔ نوکری، تعلیم اور کھیلوں کا سلسلہ شروع کیا جائے ، دنیا میں تو اسپیشل بچوں کے قومی ، صوبائی اور عالمی سطح پر اولمپکس بھی ہوتے ہیں ۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے معذور افراد معاشرے کا قابل ذکر حصہ بن سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک قابل بچاؤ بیماری ہے ۔فالج ، ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہونے والی معذوری کو کم کیا جا سکتا ہے۔دنیا میں اس کی شرح کافی کم ہوئی ہے ۔ صرف فالج سے پاکستان میں روزانہ 400 افراد مفلوج ہو رہے ہیں جنہیں ہم بچا سکتے ہیں۔ معاشرے کے ہر شعبے کا اس میں کردار ہو سکتا ہے۔ معذوری بچانے کے لیے صرف حکومت کافی نہیں ، سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں ریسرچ کی ضرورت ہے، ہم ایک اس حوالے سے آگہی کا ایک میگزین نکالتے ہیں۔ ریسرچ کرتے ہیں ، ڈیٹا جمع کرتے ہیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے۔ پاکستان میں اس وقت معذوروں کی مدد کرنے کے لیے ہیلپنگ ہینڈ نے بڑا کام کیا ہے ، 6بحالی کے ادارے ملک میں وہ چلا رہے ہیں،ایک کالج آف فزیو تھراپی چلا رہے ہیں اس کے علاوہ ہیلپنگ ہینڈ کے تعاون سے کراچی میں ملک کا سب سے پہلا بڑا ’نیورولوجیکل ڈیزیز سنٹر ‘بنا رہے ہیں جس میں دماغ و اعصاب سے متعلق تمام تر بیماریوں کا علاج اور بحالی ہو سکے گی۔یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی جامع سہولت ہو گی جو علاج کے ساتھ بحالی کا مرکز بھی ہوگی۔یہ معذور افراد ہمارے معاشرے کا سرمایہ ہیں ، ان لوگوں کو بھی بہترین سہولیات دے کر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جوپوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے میں وہ کردار ادا کر سکتے ہیں جو ہم بھی نہیں کر سکتے‘۔

پاکستان میں جتنا کام معذور افراد کی بہبود کے لیے ہونا چاہیے اُتنا نہیں ہو رہا۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو اس حوالے سے آگاہی اور ہمت بڑھانے کے پروگرامات ترتیب دینے چاہیے۔ پروفیسر حافظ نسیم الدین

مہمان خصوصی ، صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ ’ایک اچھا اور با مقصد پروگرام منعقد کیا گیا، ڈاکٹر صاحبان اور پروفیسر صاحبان نے خاصی معلوماتی گفتگو کی، مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ، اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ، سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے قانون سازی کی ہے ، اس سال بھی بہتری کے لیے مزید ترمیم کی ہیں ،قوانین بن رہے ہیں ، نوکری کا کوٹہ بھی بڑھایا گیا ہے پہلے 2 فیصد پر صحیح عمل نہیں ہوتا تھا اب 5 فیصد کر دیا گیا ہے اور اس کے لیے الگ سیکریٹریٹ بھی بنایا گیا ہے ، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی جانب سے اس ضمن میں خصوصی ہدایات دی گئی ہیں کہ سرکاری و دیگر اداروں میں اس بات کے عمل درآمد کی یقین دہانی ہو۔سندھ حکومت نے عمارتوں کی تعمیرات کے حوالے سے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا ہے جس پر تاحال عمل نہیں ہوا ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو خط بھی بھیجا کہ نئی بلڈنگز میں وہیل چیئر اور ریمپ بنایا جائے۔ اب ہم تمام نئے اجازت ناموں میں اس بات کو لازمی شامل کریں گے چاہے شاپنگ پلازہ ہوں یا رہائشی پلازہ۔ جو بن چکے ہیں وہاں بھی سہولیات کا سلسلہ شروع کرایا جائے گا، ٹرانسپورٹ کا نظام اچھا نہیں البتہ ہم لاگو کر رہے ہیں۔ جو بی آر ٹیز بن رہی ہیں، جو سٹی بس شروع کر رہے ہیں اُس میں معذور افراد کے لیے پچاس فیصد رعایت کے ساتھ سفر کی سہولت دیں گے اور اس پر پورے سندھ میں عمل ہوگا۔ تعلیم تو ہائر سیکنڈری تک مفت ہے ، اب شہید بے نظیر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی تک تعلیم کی مفت سہولت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب ہم ایچ ای سی سے ملک بھر میں اس کو لاگو کروانے کی کوشش کریں گے۔دیگر توجہات جو آج ہمیں ملی ہیں ہم اس پر بھی کام کریں گے۔ ڈاکٹر صاحبان نے جن چیزوں کا بتایا ہے اُن کی فراہمی اور تعاون پر کام کریں گے ۔ہم آپ سے اس ضمن میں آپ کی تجاویز کے منتظر بھی ہونگے اور اس پرعملی تعاون بھی کریں گے۔چونکہ ڈاکٹر حضرات براہ راست اس معاملے کو دیکھتے ہیں اس لیے اُن کی تجاویز اہم ہیں۔
آکوپیشنل تھراپی کا تعارف پیش کرتے ہوئے آکوپیشنل تھراپی ہیڈ، لیاقت نیشنل اسپتال اینڈمیڈیکل کالج نیلم زہرہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں بہت کم لوگ ہیں جو اس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں ، پیشہ ورانہ اور عوامی سطح پر اس پیشہ کی آگہی بہت کم ہے۔اس کا مقصد معذور افراد کو اس طرح تربیت دینا ہے کہ اُن کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نمایاں کر کے اُنہیں ہمت کے ساتھ آگے بڑھایا جائے تاکہ وہ کسی کام کے ذریعے معاشرہ میں کارآمد ہو سکیں۔ہم سب میں کچھ نہ کچھ صلاحیت ہوتی ہے ، چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی ،دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں بنائی گئی ۔ یہ پیشہ بنیادی طور پرلوگوں کے کاموں پر کام کرنے کا ہے ۔وہ لوگ جو اپنے روزانہ کے عمومی کام نہیں کر پاتے ، دوسروں کی محتاجی کا ذریعہ بننے لگتا ہے تو ہم اُس محتاجی کے خاتمے کی جانب اُسے لے کر چلتے ہیں ۔کام کیسے ہو۔ رشتہ، کمانا کیسے ہے؟ اس کے 3 ماڈل ہیں۔ پہلا مورل ماڈل ہے۔دوسرا میڈیکل ، تیسرا سوشل چوتھا ایمپاورمنٹ ماڈل ہے۔جس میں مختلف طریقوں سے اُن کی تربیت کرتے ہیں ، اُن رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں جو اُن کی صلاحیتوں کے بڑھنے میں سامنے آ رہی ہوں، اسی طرح ہم کام سکھا کر چھوڑ نہیں دیتے ،بلکہ اُن کی صلاحیت کے مطابق اُن کو نوکری بھی دلاتے ہیں ، پھر ساتھ ساتھ جائزہ لیتے ہیں اُن مسائل کا جو پیشہ ورانہ زندگی میں بہتر پرفارم کرنے میں اُن کے لیے رکاوٹ بنیں۔
ڈاکٹر تہمینہ تابش ہیڈ آف اسپیچ اینڈ لینگویج پیتھالوجی ،لیاقت نیشنل اسپتال اینڈمیڈیکل کالج نے اسپیچ اینڈ لینگویج تھراپی کے حوالے سے شرکا کو بتایا کہ ’عام طور پر معذور افراد کی بحالی کی بات کی جاتی ہے تو فزیو تھراپی کا نام سننے میں آتا ہے مگر یہ بحالی صرف فزیو تھراپی تک محدود نہیں ہوتی ۔معذوری سے بحالی ایک وسیع دائرے کا کام ہے جس میں فزیو تھراپی ایک حصہ ہے ، اس کے علاوہ مریض کے بول چال پر کام کرنے کا کام اسپیچ تھراپی کے دائرے میں آتا ہے ،اسی طرح نفسیاتی اُمور کے لیے سائیکالوجسٹ کام کرتا ہے ۔سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کمیونیکیشن یعنی ابلاغ کیا ہے؟ابلاغ بنیادی طور پر سامعین تک اپنا پیغام یا کوئی معلومات بانٹنے کا عمل ہے ۔یہ پیغام بول کر،لکھ کر، اشارے سے ، کسی نشریاتی یا اشاعتی ذریعے سے کسی طرح بھی انجام دیا جاتا ہے، باڈی لینگویج بھی اس میں مددگار ہوتی ہے ۔ بطور انسان جتنا بھی ہم سوشل ہوتے ہیں اس میں بول چال سب سے اہم ہے ، ہمیں اپنا مدعا بتانا ہوتا ہے اس کا نام ہی ابلاغ ہے ۔وہ مسائل یا وجوہات جو لوگوں میں یہ معذوری پیدا کرتے ہیں اُن میں mentally retarded ، سماعت سے محرومی، Autism، cereberal palsy، ذہنی ایشوز والے بچے، vocal cord injury الزائمر ، نیورولوجیکل ڈس آرڈرکے علاوہ کٹے ہوئے تالو، کٹے ہوئے ہونٹ کا ہونا بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ بولنے کے مسائل بھی 2 طرح کے ہوتے ہیں جیسے تتلاہٹ، ہکلاہٹ ، ناک سے بولنا، آواز باریک ہو جانا، پھر زبان کے مسائل کو بھی اسی میں دیکھا جا تا ہے ۔اسی طرح اگر ہم دیکھیں کہ زبان کی صلاحیتیں عمر کے مطابق نہیں چل پا رہی تو بھی یہ ایک نشانی ہوتی ہے ، اگر ہم اس کو بروقت ڈیل نہیں کریں گے تو آگے چل کر بچے کی شخصیت خراب ہو گی۔تدریس سے لے کر معاشرے کا حصہ بنانے کے عمل میں بھی مسائل آتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگر آپ اس طرح کے مسائل محسوس کریں تو فوری طور پر اسپیچ تھراپسٹ سے رجوع کریں تاکہ اس معذوری کو دور کیا جا سکے۔
ڈاکٹر مدیحہ لطیف، اسسٹنٹ پروفیسر ، کلینیکل سائیکالوجی ڈاؤ یونیورسٹی نے انٹیلیکچوئل ڈس ایبیلیٹی کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’جسمانی معذوری پر بہت بات کی جاتی ہے ، مگر ذہنی معذوری کو لوگ سنجیدہ نہیں لیتے یا سمجھ نہیں پاتے ۔آج ہم اسی موضوع پر آگہی دینے کی کوشش کریں گے ۔یہ بنیادی طور پر پیچیدہ اصطلاح ہے جسے Mentally Retardکہا جاتا تھا جسے بعد میں امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن نے اس لفظ کو بدل کر Intellectual Disability کر دیا ہے ۔اس کو یوں بھی کہا جاتاہے کہ اگر آپ کا آئی کیو لیول 70 سے کم ہو جائے ۔ اس معذوری کی 4 اقسام یا درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ’مائلڈ‘، جس میں آئی کیو لیول 55-70 ہو، ’ماڈیریٹ ‘جس میں آئی کیو لیول 40-55ہو،’سیویر‘جس میں 25سے 40ہو اور ’پرو فاؤنڈلیول‘جس میں اسکور 25سے کم ہو۔ایک بچہ اگر اپنی عمر کے مطابق اپنے مائل اسٹون پورے نہیں کر پا رہا ہوتا تو یہ نشانیاں ہیں جس میں چیک کرانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر نفسیاتی مسائل بھی آتے ہیں ۔اس لیے اس معذور ی کی جانچ کی کچھ نشانیاں ہیں جو عمر کے مطابق جانچی جاتی ہیں جن میں پہلی تو نو مولود کی ہے اگر اُس کاکوئی عضو کام نہ کر رہا ہو، اسی طرح اگلے دو سے چار ماہ میں کوئی ایسی بات ظاہر ہو ، دیکھنے، توجہ کرنے اور سننے جیسا کوئی مسئلہ اس عمر میں ظاہر ہوتو یہ بھی ایک نشانی ہے اس عمر کے بچوں کے لیے۔ اس کے بعد 6 سے 18 ماہ کے اندر اگر بچے کی حرکات مکمل نہیں ہو رہی ہوں یا وہ صحیح طریقے سے تمام حرکات انجام دینے سے قاصر ہو یا مشکل درپیش نظر آئے۔دو سے تین سال کی عمر میں اگر بچہ بولنے میں مسئلہ کرے تاخیر سے بولے یا مشکل سے بولے تو بھی یہی مسئلہ آگے 3سے 5سال کی عمر میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے جس میں کھیل کود میں مشکلات ہوں۔ پھر 5 سال کے بعد اگر اُسے تعلیمی مسائل ہوں یاد رکھنے کا مسئلہ یا توقع سے کم نتائج لانا۔ مجموعی طور پر پاکستان میں یہ مرض بچوں میں 2 سے 3 فیصد پایا جاتا ہے۔ ان نشانیوں کے بعد ہم ٹیسٹ کرکے مسئلہ کے حل کی طرف جاتے ہیں۔ ماڈیریٹ لیول میں بھی تعلیمی، ووکیشنل تربیت دے کر انہیں بڑی سپورٹ دی جا سکتی ہے ،اگر سپروائز کیا جائے تو یہ بہت کچھ کر سکتے ہیں ، ہمیں ایسے بچوں کے لیے مواقع بنانے ہوں گے۔ تعلیمی مسائل میں تربیت کے مسائل ہوں تو اُس کی جانچ کے لیے کچھ ٹیسٹ ہیں جن میں سائیکومیٹرک ٹیسٹ، آئی کیو ایسسمنٹ ، ویزلر اسکیل، وربل انٹیلیجنس، پرفارمنس انٹیلیجنس، ایڈپٹیو بیہیوریل و دیگر جن میں علاج ان کی بیہیویر مینجمنٹ، فیملی تھراپی، بچوں کو انعام اور تعریف کی ٹیکنیکس کے ساتھ کیاجاتاہے۔‘
اختتام پر مہمانان کو صوبائی وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے شیلڈ کا تحفہ پیش کیا۔ ڈاکٹر عبد المالک نے مہمانان گرامی کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے گفتگو سمیٹی اورکہاکہ اس عالمی دن کے موقع پر اس کوشش کا مقصد میڈیا ، عوا م الناس اور حکومت کو یہ آگہی دینا تھا کہ کوئی معذور ناکارہ نہیں ہوتا، جدید ترقی یافتہ معاشرے ایسے لوگوں سے کام لے کر انہیں معاشرے کا کارآمد حصہ بناتے ہیں ۔جن مختلف مقررین کو بلایا گیا وہ وہی حصہ تھا جس کی آگہی مجموعی طور پر عوام کے اندر کم ہے ۔اس موقع پر وزیر اطلاعات سے خصوصی سفارش کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد المالک نے کہاکہ صوبے نے جو معذور افراد کے لیے مختلف محکموں میں نوکری کا جو کوٹہ مختص کیا ہے،اُس کوٹے میں معذور افراد ہی کو بھرتی کیا جائے۔ اس کے علاوہ عوامی مقامات، ریلوے، ائر پورٹ، پر وہیل چیئرز و دیگر ضروری سامان کی دستیابی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔