راہول گاندھی کا مذہب

534

پچھلے دنوں ہندوستان کی ریاست گجرات میں ریاستی اسمبلی کے انتخاب کی مہم کے آغاز پر جب کانگریس کے صدر راہول گاندھی سومنات کے مندر گئے تو مندر کے رجسٹر میں انہیں غیر ہندو لکھا گیا تھا جس پر زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے شور مچایا تھاکہ یہ کانگریس کے خلاف سازش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ راہول ہندو ہیں اور مقدس دھاگہ جنیو پہنتے ہیں۔
اس تنازعے پر مجھے راہول کے دادا فیروز گاندھی یاد آگئے جن کا میں سن ساٹھ میں دلی میں پڑوسی تھا۔ میں پارلیمنٹ کے قریب رائے سینا ہاسٹل میں رہتا تھا اور دو قدم کے فاصلے پر راجند پرشاد روڈ پر اراکین پارلیمنٹ کے بنگلے میں فیروز گاندھی رہتے تھے۔ میرے دوست، ممتاز صحافی اندر ملہوترا نے بہت تعریف و توصیف کے ساتھ میرا تعارف فیروز گاندھی سے کرایا تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں فیروز گاندھی مجھ سے گھل مل گئے تھے، ایک تو پڑوسی کے ناتے سے دوسرے انہیں پاکستان کی سیاست، اقتصادی صورت حال اور سماجی حالات جاننے میں گہری دلچسپی تھی۔ مجھے تعجب ہوا کہ وہ نہایت شستہ اردو بولتے تھے اور اردو شاعری سے گہرا شغف تھا۔ میں نے جب حیرت کا اظہار کیا تو کہنے لگے حضرت میرا بچپن اور جوانی الہ آباد میں گزری ہے اتنا بھی میں کوڑھ مغز نہیں تھا کہ اردو سے میں بے بہرہ رہتا۔ فیروز گاندھی روزانہ شام کو اصرار کر کے مجھے اپنے بنگلے پر بلاتے تھے۔
ان دنوں ان کی اہلیہ اندرا گاندھی، وزیر اعظم کی کوٹھی تین مورتی میں اپنے والد نہرو کے ساتھ رہتی تھیں اور فیروز گاندھی اکیلے اپنے بنگلے میں رہتے تھے۔ اس زمانہ میں ان کے اندرا گاندھی سے تعلقات کشیدہ تھے۔ جس کا دوش وہ نہرو کو دیتے تھے۔ وہ بڑے دکھ کے ساتھ کہتے تھے کہ میں نے نہرو کی پتنی کملا نہرو کی ان کے بیٹے کی طرح خدمت کی۔ وہ جب تپ دق کے مرض میں مبتلا تھیں تو میں ان کے ساتھ بھوالی کے سینیٹوریم میں رہا اور جب ان کی حالت بگڑی اور علاج کے لیے لوزین، سوئزر لینڈ گئیں تو میں ان کے ساتھ رہا۔ اس کا نہرو نے یہ صلہ دیا کہ میری پتنی کو مجھ سے چھین لیا۔
نہرو بھی ان دنوں فیروز گاندھی سے ناخوش تھے کیوں کہ انہوں نے حکومت کی لائف انشورنس کمپنی میں سنگین کرپشن کے اسکنڈل کا انکشاف کیا تھا جو مندھرا اسکنڈل کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ اس اسکنڈل میں ملک کے مالدار ترین صنعت کار رام کرشن ڈالمیا کو قید کی سزا ہوئی تھی اور نہرو کے وزیر خزانہ ٹی ٹی کرشنما چاری کو استعفا دینا پڑا تھا۔ اس کے بعد فیروز گاندھی نے حکومت میں کرپشن کے خلاف بڑے پیمانہ پر مہم شروع کی تھی جو نہرو کے لیے سخت پریشانی کی باعث تھی۔ فیروز گاندھی کی قیادت میں کانگریس میں باغی گروپ منظم ہو رہا تھا جس کی وجہ سے نہرو اور اندرا گاندھی دونوں سخت نارارض تھے۔
فیروز گاندھی کو سب سے زیادہ شکایت اندرا گاندھی سے تھی۔ انہیں اس بات پر سخت رنج تھا کہ اندرا گاندھی نے سیاست کی خاطر ان کے دونوں بیٹوں راجیو اور سنجے کو ہندو بنا دیا ہے۔ فیروز گاندھی کا کہنا تھا کہ میں بہروچ، گجرات کا خالص پارسی اور فریدون جہانگیر کا بیٹا، میرے جیتے جی میرے بچوں کے ماتھے پر تلک لگا کر اور انہیں اپنے ساتھ مندروں میں لے جا کراندرا انہیں ہندو ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
میں نے ایک شام فیروز گاندھی سے کہا کہ میں نے آنند بھون الہ آباد میں آپ کی شادی کی تصویر دیکھی ہے جو ہندوانہ طریقہ سے ہوئی تھی اور ایک پنڈت شادی کی رسم ادا کررہے ہیں۔ اس میں اندرا گاندھی کے پیچھے نہرو کی ہمشیرہ مسز وجے لکشمی پنڈت بیٹھی ہوئی ہیں۔ فیروز گاندھی بولے لیکن تصویر میں نہرو کہیں نظر نہیں آتے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ فیروز گاندھی نے کہا کہ اس لیے کہ وہ اس شادی کے خلاف تھے اور صرف اس شرط پر شادی کے لیے راضی ہوئے کہ شادی آنند بھون میں ہوگی اور ہندو رسم کے مطابق ہوگی۔ فیروز گاندھی نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں 1933 سے اندرا سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن نہرو طرح طرح کے حیلے بہانے بنا کر ٹالتے رہے آخر کار اندرا کے بھی شدید اصرار پر وہ بارہ سال بعد 1945 میں شادی کی اجازت دینے پر مجبور ہوئے۔
میں نے پوچھا کہ آپ کے نام میں گاندھی پر ایک سوال میرے ذہن میں اور بے شمار دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ کا گاندھی جی سے کیا تعلق ہے؟ کہنے لگے کہ 1930 میں جب میں الہ آباد میں تھا میں کانگریس کی ونار سینا میں شامل تھا۔ میں ملک کی آزادی کا متوالا تھا اور اس زمانے میں گاندھی جی سے بے حد متاثر تھا۔ میرا اصل نام گھندی۔ Ghandy تھا، گھندی عطر بیچنے والوں کو کہتے ہیں اور یہی ہمارے خاندان کا نام تھا، گاندھی جی کی عقیدت میں میں نے اپنے نام کی اسپیلنگ بدل کر Gandhi کر دی یوں میرا نام گاندھی ہوگیا۔
فیروز گاندھی کو سیاسی مقاصد کے لیے اپنے بیٹوں کا مذہب تبدیل کیے جانے پر اس قدر افسوس تھا کہ جیسے ان کے جیتے جی ان کے بیٹوں کو چھین لیا گیا ہو اور خود ان کی شناخت مسخ کردی گئی ہو۔
فیروز گاندھی کی ان باتوں کو جب میں یاد کرتا ہوں تو 8ستمبر 1960 وہ دن یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب فیروز گاندھی نے مجھے اور اندر ملہوترا کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ بارہ بجے سوالات کے وقفہ کے دوران، میں اور اندر ملہوترا لوک سبھا کی پریس گیلری میں بیٹھے تھے کہ اچانک نیچے ایوان سے فیروز گاندھی نے ہم دونوں کو صدر دروازہ کی طرف آنے کے لیے اشارہ کیا۔ ہم دونوں تیزی سے صدر دروازہ کی طرف لپکے۔ وہاں فیروز گاندھی ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ کہنے لگے کہ مجھے سینے میں درد ہورہا ہے میں نزدیک ولنگڈن ہسپتال جارہا ہوں، واپسی میں پریس کلب میں ملاقات ہوگی۔ فیروز گاندھی خود اپنی کار چلا کر ہسپتال روانہ ہوئے اور ہم پریس کلب کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی ہم پریس کلب میں ان کا انتظار کر رہے تھے کہ ریڈیو پر ایک بجے کی خبروں میں اعلان ہوا کہ فیروز گاندھی کا ہسپتال میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہو گیا۔ ہمارا دل دھک سے رہ گیا ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہم نے فیروز گاندھی کو کار میں ہسپتال جاتے دیکھا تھا اور اب ان کے انتقال کی خبر سن رہے ہیں۔ کچھ دنوں بعد فیروز گاندھی کی میت نذر آتش کر کے ان کی راکھ الہ آباد میں پارسیوں کے قبرستان میں دفن کر دی گئی۔